کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 64
دقت و دشواری ہوتی ہے۔ زیاد نے اپنی نحیف آواز میں اپنے آقا سے گزارش کی آقا جاتے ہوئے اپنی زیارت سے محروم تو نہ کیجئے۔ میں چاہتا ہوں کہ قیامت کے دن جب رب پوچھے کہ کیا کرتا ہوا آیا اور دنیا میں آخری نگاہ کس پہ پڑی؟ تو میں کہوں گا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے وعدے کو نبھاتا ہوا آیا اور جس پہ نگاہ پڑی وہ تیرے محبوب کا چہرہ تھا۔ اس سعادت سے محروم تو نہ کیجئے۔ رحمت کائنات نے ہاتھ اٹھا لیا۔ زیاد عرض کرنے لگے آقا آخری لمحے ایک بات کی گواہی تو دے دیجئے۔ آپ نے فرمایا زیاد کیا بات ہے؟ کہنے لگے یا رسول اللہ قیامت کے دن یہ گواہی دیجئے گا ناں کہ میں نے آپ سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا تھا۔ دیکھ لیجئے جیتے جی تو آپ کے خیمے سے نہیں ہٹا ہوں۔ جب تک زندگی میں سانس کی آمد و رفت باقی تھی میں آپ کے دروازے پہ کھڑا رہا ڈٹا رہا۔ حضور نے فرمایا زیاد تو خوش ہوجا کہ تونے بھی اپنے وعدے کو پورا کیا اور محمد کا رب بھی اپنے وعدے کو پورا کر رہا ہے۔ یہ کہا اور زیاد کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ حضور نے پیار سے زیاد کا سر زمین پر رکھا۔ صحابہ کا جمگھٹا آنکھوں میں آنسو اس منظر کو کو دیکھ رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا ساتھیو تم نے میرے محب کا آخری وقت دیکھا ہے؟ صحابہ نے کہا یا رسول اللہ دیکھا۔ فرمایا تمہیں کیا معلوم ہے کہ جبرائیل نے آکے مجھے خبر دی رب نے حجابات اٹھائے اور میں نے دیکھا کہ زیاد کی روح کے استقبال کے لئے اللہ نے جنت کے آٹھوں دروازوں کو کھول دیا ہے۔ محبت کا معنی یہ ہے کہ نبی محترم رسول معظم سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے عملی طور پر ہو۔ کیا؟ اپنے آپ کو گناہوں سے بچایا جائے اپنے آپ کو طاہر اور پوتر بنایا جائے قرآن کا پڑھنے والا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر عمل کرنے والا۔ یہ ہے نبی کی سیرت کا معنی اور یہ ہے نبی کی محبت کا معیار۔ یہ کوئی محبت نہیں کہ ہم نعرے بلند کر لیں ہم دعوے کر لیں لیکن سرور کائنات کی بات آجائے تو پھر کہیں کہ بات تو حضور کی بھی سچی لیکن اپنے شیخ کی بات کو کیا کہوں۔ محبت کرنے والا اپنے محبوب کے مقابلہ میں ساری کائنات کے لوگوں کی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتا۔ پھر وہ کیا محبت ہے؟