کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 63
جائیں۔ اٹھاتے ہوئے ہوش آگیا آنکھیں کھول دیں۔ فرمایا کیا بات ہے ؟ کہا زیاد تم بہت زخمی ہو۔ بے ہوش ہو کے گر پڑے۔ ہم تمہیں زخمیوں کے کیمپ میں لے جانا چاہتے ہیں۔ آنکھوں میں آنسو آگئے۔ کہنے لگے نہیں مجھ پہ رحم کرو۔ مجھ کو زخمیوں کے کیمپ میں نہ لے جاؤ۔ مجھ کو حضور کے خیمے کا سہارا دے کے کھڑا کر دو۔ کہنے لگے کیا کہتے ہو ؟ کہا یہی کہتا ہوں۔ مجھ کو نبی کے خیمے کی طناب کے سہارے کھڑا کر دو کہ میں نے اپنے آقا سے وعدہ کیا ہے جیتے جی آپ کے خیمے سے نہیں ہٹوں گا اور ابھی میری زندگی کے سانس باقی ہیں۔ کہا تم زخمی ہو۔ کہا کچھ ہو جب تک میں زندہ ہوں نبی کے دروازے سے ہٹنا گوارہ نہیں ہے۔ اصرار۔ انکار۔ آخرش ان کی درخواست اتنی غالب ہوئی کہ سہارا دے کے کھڑا کر دیا۔ حدیث میں آیا ہے کہ پھر تیر برسے پھر تلواریں چلیں پھر نیزوں کے زخم آئے پھر زخم لگے۔ بانوے زخم لگے۔ جب ترانواں زخم لگا منہ سے چیخ نکلی اور گر پڑے۔ چیخ کی آواز رحمت کائنات کے کانوں تک پہنچی۔ خیمے سے بھاگے ہوئے باہر نکلے۔ دیکھا کہ زیاد کے جسم پہ زخم لگنے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ اتنے زخم لگے ہیں کہ اب وہاں کوئی زخم لگنے کی جگہ بھی باقی نہیں رہی ہے۔ آخری لمحات اور زیاد تیری محبت کا کیا کہنا اور تیرے نصیبے کا کیا کہنا۔ حضور نے جلدی سے زیاد کے سر کو اٹھایا۔ خود ننگی زمین پہ بیٹھے اور اسے اپنی گود میں رکھ لیا۔ حدیث کے الفاظ ہیں جب دیکھا کہ سر سے لے کر پاؤں تک ہر جگہ سے خون ٹپک رہا ہے آنکھوں میں آنسو آگئے کہ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤْفٌ رَّحِیْمٌ۔(سورۃالتوبہ:۱۲۸) میں نے اتنا مہربان نبی تم میں بھیجا ہے کانٹا تمہارے پاؤں میں چبھتا ہے ٹیس اپنے دل میں محسوس کرتا ہے۔ اتنا مہربان اور مشفق نبی۔ آنکھوں سے آنسوؤں کے قطرے ٹپکے زیاد کے چہرے پہ گرے۔ گرم گرم قطروں نے آب حیات کا کام کیا۔ آنکھیں کھول دیں۔ کیا دیکھتا ہے کہ سامنے سرور کائنات کا چہرہ ہے۔ آنکھیں پھر بند کیں پھر کھولیں کہ کہیں خواب تو نہیں دیکھ رہا۔ حضور کا چہرہ سامنے ہے۔ حضور نے زیاد کی آنکھوں کو کھلا ہوا دیکھا۔ پیار سے اپنے دست مبارک کو اٹھایا حضرت زیاد کی آنکھوں پہ رکھا کہ زخمی کو دیکھنے میں بڑی