کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 62
سیکھا۔ ہم کو دنیا پیاری ہے۔ سرور کائنات کا نام ہم نے صرف اظہار کے لئے اور صرف مظاہرے کے لئے رکھا ہوا ہے۔ محبت ؟ ان المحب لمن یحب لمطیع محبت ان کو ہوتی ہے جو اپنے محبوب کی کہی ہوئی بات سے ایک انچ پیچھے ہٹنا گوارہ نہیں کرتے۔ مر جاتے ہیں لیکن کہتے ہیں جہاں محبوب نے کھڑا کیا ہے اس جگہ سے ہٹنا گوارہ نہیں ہے۔ حضرت زیاد ابن ثقن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ بڑا مشہور ہے۔ امام ابن ہشام نے اپنی سیرت میں اور دیگر ائمہ نے اپنی اپنی کتابوں میں جو سرور کائنات کی سیرت پہ لکھی ہیں ان میں لکھا ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میدان احد میں تشریف لے گئے۔ دشمن کے حملوں کا سارا زور نبی کائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات اقدس پر تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ جب تک حضور موجود ہیں مسلمانوں کو ان کے دین سے برگشتہ یا ان کے قدموں کے اندر ڈگمگاہٹ پیدا نہیں کی جا سکتی۔ حضور کو نقصان پہنچانے کے لئے سارا زور لگایا۔ بڑھ بڑھ کے حملے کرتے رہے۔ نبی رحمت نے یہ عالم دیکھا۔ آپ نے مسلمانوں کو خطاب کیا۔ فرمایا مسلمانو! کون ہے جسے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی تلوار دیتا ہے۔ وہ مجھ سے عہد کرے کہ جیتے جی مجھ تک دشمن کو نہیں پہنچنے دے گا۔ جب تک زندہ رہے گا میرے دروازے پہ پہرہ دے گا۔ ایک دبلے پتلے سے آدمی زیاد ابن ثقن اٹھ کے کھڑے ہوئے عرض کی آقا میں آج آپ سے یہ وعدہ کرتا ہوں جب تک زندہ رہوں گا آپ کے خیمے کے دروازے سے نہیں ہٹوں گا۔ حضور نے دیکھا یہ کمزور آدمی ہے۔ آپ نے فرمایا بیٹھ جاؤ۔ پھر کہا پھر وہی اٹھا پھر کہا پھر وہی اٹھا۔ آپ نے اپنی تلوار اسے دے دی۔ فرمایا دیکھنا وعدہ کیا ہے اس کو پورا کرنا۔ اس نے کہا اللہ کے حبیب وعدہ نبھاؤں گا۔ حدیث میں آیا ہے دشمن نے سارا زور نبی کے خیمے پر حملوں میں لگا دیا۔ ہر حملہ آتا زیاد اسے اپنے سینے پہ روکتے۔ جسم پہ بہتر زخم لگے۔ ایک دو تین چار نہیں بہتر زخم۔ کہنا بڑا آسان اور کھانا بڑا مشکل۔ دودھ پینے والے مجنوں تو بہت ہوتے ہیں خون دینے والا کوئی نہیں ہوتا۔ بہتر زخم لگے۔ حدیث میں آیا ہے بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ طلحہ و زبیر آگے بڑھے جلدی سے اٹھایا کہ زخمیوں کے خیمے میں لے