کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 61
گیا میرے باپ کی کوئی حیثیت نہیں۔ اس نے کہا الحمد اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیریت سے ہیں پھر سجدہ شکرانہ میں گر گئی۔
ایک سوار اور آیا پھر پوچھا کیا خبر ہے؟
کہا تیرا بھائی بھی شہید ہو گیا ہے۔
کہا میرے بھائی کی کیا بات ہے مجھے سرور کائنات کا بتلاؤ کہ ان کا کیا حال ہے؟
کہا الحمد للہ وہ خیریت سے ہیں۔
پھر ایک آیا۔ اس نے کہا ماں تیرا بچہ بھی احد کے میدان میں شہید ہو گیا ہے۔ ماں تھی چوٹ پڑی۔ کہنے لگی میں نے اپنے بیٹے کا نہیں پوچھا تھا میں نے تو آمنہ کے لال کا پوچھا تھا۔
پھر ایک آنے والا آیا۔ کہا کیا خبر ہے؟
کہا ماں تیرے سر کا تاج بھی تجھ سے چھن گیا ہے۔ خاوند کی شہادت کی خبر سنی دل پہ چوٹ پڑی کہ آج سر کا سائیں نہیں رہا۔ جلدی سے اپنے آنسو پی گئی کہ کہیں رب ناراض نہ ہو جائے۔ کہا میرے سر کا سائیں نہیں رہا تو کوئی بات نہیں مجھے امت کے سائیں کی بتلاؤ کہ اس کی کیفیت کیا ہے ؟
کہا! ماں دشمن پلٹ چکا ہے۔ اللہ نے دشمن کو خائب و خاسر کیا وہ لوٹ چکا ہے سرور کائنات خیریت سے ہیں۔ کہنے لگی یا اللہ اگر یہ چاروں قربانیاں تیری راہ میں قبول ہو جائیں سرور کائنات پر کوئی آنچ نہ آئے تو مجھ کو کوئی غم نہیں ہے۔
کہاں ہیں محبت کے دعوے ؟
محبت؟ خالی خولی اور پھر اگر ذرا خطرے کی بات ہو تو اللہ کے فضل و کرم سے مولوی بھاگنے میں سب سے آگے۔ لوگوں کو مروانے کے لئے لوگوں کے بیٹے آگے مولوی پیچھے۔ بھاگنے کا وقت آئے لوگ پیچھے مولوی آگے۔ ہماری کیفیت یہ ہے۔ اس کا نام محبت ہے ؟
کعبے کے رب کی قسم ہے یہ ساری بزدلی اور گرد و پیش کے سارے حالات ہمارے ملک کو درپیش جتنی کٹھنائیاں ہیں اس کا سبب صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک اور آپ کی ذات والا صفات سے عملی محبت کرنے کا طریقہ نہیں