کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 60
بھاگی ہوئی آئی۔ کہنے لگی تم ہم کو چھوڑ کے کہاں چلے گئے؟ اس پرانی آشنا عورت کو دیکھا اور نبی کا چہرہ سامنے آگیا۔ عورت بھاگی ہوئی آئی۔ یہ پیچھے ہٹ گیا۔ اس نے کہا ’’اتنے دنوں بعد ملے ہو اور دور ہٹ رہے ہو؟ ‘‘ اس نے کہا ’’بی بی اپنے جسم کو پیچھے کر لے۔‘‘ اس نے کہا ’’کیا ہوا؟ ‘‘ اس نے کہا ’’اب میرے ہاتھوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کو چھو لیا ہے۔ اب یہ گناہوں کی طرف نہیں بڑھ سکیں گے۔‘‘ لوگوں کے اندر کس طرح کی طہارت اور کس طرح کی پاکیزگی پیدا ہوئی اور انہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنی محبت کتنی عقیدت اور کتنا پیار تھا۔ آج ہماری بھی عقیدت ہے۔ ابھی مولانا حافظ عبد اللہ صاحب بڑے ناراض ہو رہے تھے۔ جلوس نکالتے ہیں‘ ہار پہنتے ہیں اور مولوی حضور کی ولادت کی خوشی میں چھکڑوں پہ اسی طرح لادے جاتے ہیں جس طرح پٹھے لادے جاتے ہیں۔ میں کہتا ہوں ناراض ہونے کی کیا بات ہے؟ جو کسی کے دل میں آئے وہ کرے ہم کو کیا ہے ’’اپنی‘‘ بلا سے بوم بسے یا ہما رہے ہم کیا کر سکتے ہیں بھائی ؟ لیکن اتنا سوال ضرور کرتے ہیں کہ لوگو کیا نبی کی محبت اس میں ہے کہ ہار پہنے جائیں چمٹے بجائے جائیں سوانگ بھرے جائیں یا نبی کی محبت اس بات کا نام ہے کہ بیٹا بھی میدان جنگ میں بھائی بھی میدان جنگ میں‘ باپ بھی میدان جنگ میں‘ شوہر بھی میدان جنگ میں اور خود راستے پہ کھڑی رب کی بارگاہ میں ننگی زمین پہ سجدے کر رہی ہے۔ اللہ اسلام کی آبرو رکھ لے۔ ایک جوان احد کے میدان سے آیا دیناریہ کو دیکھا۔ دیناریہ جلدی سے پردہ کر کے اٹھ کے کھڑی ہو گئیں۔ بوڑھی عورت تھیں۔ سوار رک جا۔ میدان جنگ کی کیا خبر ہے ؟ اس نے دیناریہ کو دیکھا پہچان لیا۔ اپنی گردن کو جھکا لیا۔ کہا ماں تیرا باپ شہید ہو گیا ہے۔ تڑپ اٹھی۔ کہا میں نے اپنے باپ کا تو نہیں پوچھا تھا میں نے پوری کائنات کے باپ کا پوچھا تھا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے ؟ میرے باپ کا کیا ہے اگر امت کا باپ بچ تو