کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 58
گا کوئی اور ہی بندوبست کرو اور یہ عبرت ہے ان لوگوں کے لئے جو قوم کی گردنوں پر جبرا مسلط رہنا چاہتے ہیں۔ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِّاُولِی الْاَبْصَارِ۔ (سورۃ آل عمران:۱۳) تو میں یہ کہہ رہا تھا آج ہم دیکھیں کہ اللہ تو قرآن میں کہتا ہے مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ۔(سورۃالانبیاء:۱۰۷) اے میرے محبوب ہم نے تجھ کو کائنات کی رحمت بنا کے بھیجا ہے۔ اور وہ کائنات کی رحمت کیا تھی؟ کہ اس نے لوگوں کے جسموں کو پاک کیا لوگوں کی نگاہوں کو پاک کیالوگوں کے دلوں کو پاک کیا۔ انقلاب ایسا پیدا کیا کہ ایک آدمی گناہوں کے اندر غرق حضور کے پاس پہنچا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر میں اسلام لے آؤں تو کیا میرے گناہ بھی معاف ہو جائیں گے؟ آپ نے فرمایا: ان الاسلام لیھدم ما قبلہ تم اسلام لے آؤ۔ اللہ کا حکم ہے کہ اسلام اس طرح گناہوں کو مٹا دیتا ہے جس طرح کوئی گناہ انسان نے کیا ہی نہیں۔ اس نے کہا اللہ کے حبیب میرے گناہ تو اتنے زیادہ ہیں کہ شاید سمندروں کا پانی اتنا نہیں ہو گا جتنے میرے گناہ۔ آپ نے فرمایا کوئی بات نہیں تو اسلام لے آ۔ اللہ تیرے گناہوں کو معاف فرما دے گا۔ اسلام لے آیا۔ ظہر کی نماز کا وقت تھا۔ اس نے حضور کے پیچھے نماز پڑھی۔ ایک نماز پڑھی۔ ہم ہزاروں پڑھتے ہیں اور قرآن بھی پڑھتے ہیں کہ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ۔(سورۃالعنکبوت:۴۵) کہ نماز بے حیائی سے برائی سے روکتی ہے۔ نمازیں بھی پڑھتے ہیں باقی سارے کام بھی کرتے ہیں۔ پھر معنی کیا ہے؟ قرآن کی بات غلط نہیں ہماری نماز غلط ہے۔ ہماری نماز پڑھی ہی نہیں گئی۔ اس نے ایک نماز پڑھی۔ نماز سے فارغ ہو کے اس نے کہا اللہ کے حبیب؟