کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 57
کے بیٹھا ہوا تھا۔ پتھروں کی اوٹ میں پہاڑیوں کی اوٹ میں تاک لگا کے بیٹھا ہوا۔ مسلمان بے خیالی کے عالم میں آگے بڑھتے گئے۔ ان کو اندازہ نہیں تھا کہ دشمن گھات لگا کے بیٹھا ہوا ہے۔ رحمت کائنات ساتھ ہیں لیکن پتہ نہیں دشمن نے گھات لگائی ہوئی ہے۔ ہائے ہائے ایمان ہو تو بڑے مسئلے حل ہو جاتے ہیں۔ تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ آپ نے فرمایا ہٹ جاؤ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اکیلا دشمنوں کا مقابلہ کرے گا۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) پلٹنے والا نہیں۔ تم نے کیا سمجھا ہے میں بھاگ جاؤں گا پشت دکھاؤں گا؟ نہیں۔ دنیا دیکھے گی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اکیلا لڑ رہا ہے۔ لیکن قوم پھر تیار ہو چکی تھی۔ سعد ابن ابی وقاص اٹھے کہا آقا ہم موسی کی قوم نہیں ہیں جو کہیں فَاذْ ھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰہُنَا قَعِدُوْنَ۔ (سورۃالمائدہ:۲۴) جائیے آپ لڑیں آپ کا خدا لڑے ہم بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہم تو وہ ہیں آپ کا اشارہ ابرو ہو آپ حکم دیں پہاڑ کی چوٹی سے چھلانگ لگا دو لگا دیں گے۔ یہ نہیں پوچھیں گے کہ حکم کیوں دیا ہے۔ آپ کہئے کہ سمندر کے سینے کو چیر دو چیر دیں گے۔ یہ سوال نہیں کریں گے کہ آپ نے ارشاد کیوں کیا ہے؟ حضور کا چہرہ دمک اٹھا۔ فرمایا ساتھیو پھر اٹھو اور یاد رکھو دشمن اپنی قوت و طاقت و تعداد پہ بھروسہ کر کے آیا اور محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) خدا کی ذات پہ بھروسہ کر کے آیا ہے۔ اِنَّ وَلِیِّ اللّٰہُ الَّذِیْ نَزَّلَ الْکِتٰبَ وَھُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَ۔(سورئہ اعراف:۱۹۶) آج یہ بات کہاں ہے ؟ آج ’’ہم‘‘ پائمال و خوار پریشان و درد مند سبب کیا ہے ؟ سبب یہ ہے کہ ہر وہ گناہ جس سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو روکا جس سے رب نے ہم کو روکا ہم نے اس گناہ کو اپنی زندگی کا وطیرہ اور جزو بنا لیا ہے۔ پھر دشمنوں کی تلوار سے ہم نہیں ڈریں گے تو اور کون ڈرے گا؟ او سکھ دلیر ہیں۔ اس ملک کے اندر رہتے ہوئے اندرا گاندھی کو مارا۔ اب اس کے بیٹے کو مارنے کی سوچ رہے ہیں۔ کل کے اخبار میں آیا ہے بڑی مشکل سے بچا ہے اور سکھوں نے کہا ہے چھ مہینے سے زیادہ زندہ نہیں رہنے دیں گے۔ سمجھتے ہیں کہ انتخاب سے تو یہ نہیں جائے