کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 56
کرتا ہوں اور تو اور جماعت اسلامی کے میاں طفیل صاحب ہیں ان کا بیان بھی منصورہ سے چھپ گیا ہے۔ انہوں نے کہا ہمیں بھی بڑا افسوس ہوا ہے۔ میں نے کہا بھئی آپ کو کیا افسوس ہوا ہے ؟ وہ کون سی قربانی کی کھال تھی جو جمع کروایا کرتی تھی اب نہیں آئے گی۔ ہمیں تو کوئی افسوس نہیں۔ اچھا ہوا مر گئی ہے جان چھوٹی ہے۔ اندر سے خوش ہوئے ہیں کہ خطرہ ٹل گیا ہے۔ کیا غم ہے؟ ہماری قوم کا عجب حال ہو گیا ہے۔ فیض جب تک زندہ تھا گالی دیتے تھے۔ منکر خدا ہے کافر ہے مرتد ہے جب مر گیا اس کے ایڈیشن چھپ رہے ہیں۔ اس قوم کا عجب حال ہے۔ او محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہادروں کا بہادر دلیروں کا دلیر شجاعوں کا شجاع اور کائنات نے چشم فلک نے کبھی اتنا بہادر نہیں دیکھا جتنا رب نے میرے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بہادر بنایا تھا۔ زندگی میں رحمت کائنات کی زبان اقدس سے کبھی بزدلی کی بات نہیں ہوئی کبھی منافقت کا کلمہ نہیں کہا ۔ مکہ میں رہتے ہوئے لوگوں نے کہا تھا آئیے کمپرومائز کر لیں۔ کچھ دن آپ ہمارے خداؤں کو مان لیں کچھ دن ہم آپ کے خدا کو مان لیں گے۔ عرش والے نے کہا قُلْ یٰٓایُّھَا الْکٰفِرُوْنَ. لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ۔(سورۃ الکافرون:۱-۲) جاؤ تم کافر ہو۔ میں تم کو مسلمانوں کی صف میں کھڑا ہوتے ہوئے دیکھنا گوارہ نہیں کرتا۔ میں تم سے صلح کر لوں ؟ منافقت کیا ہے؟ یا کھل کے کہو ہم ایسے ہیں یا کھل کے کہو ہم ویسے ہیں۔ سیدھی بات کرو۔ ہم کو ڈبویا ہے تو گناہوں کی کثرت نے اور اسی کی وجہ سے ہمارے اندر منافقت آئی ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی شجاعت کا کیا کہنا۔ سرور کائنات کا اپنا چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کہتا ہے ہم نے کائنات کے امام کو دیکھا ہے چچا بیان کر رہا ہے۔ کہا رحمت کائنات کی بہادری کا عالم یہ تھا جب جنگ زور پہ ہوتی جنگ کے شعلے بھڑک رہے ہوتے بہادر ان کی تپش کو برداشت نہ کرتے ہوئے پیچھے پلٹ جاتے ہم امام کائنات کو دیکھتے کہ وہ آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اتنا بہادر اور حدیث کے الفاظ ہیں کہ ایک جنگ میں غزوہ حنین میں جب دشمن تاک لگا