کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 55
ہے تو انہوں نے کہا کہ ہم کیوں مارے جائیں؟ ہم ان کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ انہوں نے کہا کہ اب مسلمانوں کو دنیا کی کوئی طاقت ان کافروں سے نہیں بچا سکتی۔ ہم کیوں ان سے دشمنی اختیار کریں؟ بارہ سو اور بعض روایات میں آیا ہے تیرہ سو بھاگ نکلے۔ جتنی تعداد تھی سارے کھسک گئے۔ نبی رحمت علیہ الصلوٰۃ السلام کے کل سترہ سو ساتھی آپ کے ساتھ باقی رہ گئے۔ آپ نے اپنے ساتھیوں کو کہا بیٹھ جاؤ۔ سارے صحابہ بیٹھ گئے۔ نبی رحمت نے ان پہ نگاہ ڈالی۔ آپ نے فرمایا ساتھیو تم میں سے بھی جو پلٹنا چاہے پلٹ جائے میری طرف سے اجازت ہے۔ جو لوٹنا چاہے لوٹ جائے۔ ایک نے جرات کر کے پوچھا آقا ہم اگر پلٹ گئے تو کیا ہو گا آپ کیا کریں گے؟ ہائے ہائے قائد ہو تو ایسا کمانڈر ہو تو ایسا بہادر ہو تو ایسا۔ او جن کے کمانڈر کے منہ سے یہ بات نکلے کہ ہم مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اس کی فوج نے کیا لڑنا ہے ؟ جس کمانڈر کا حال یہ ہو عربی کا ایک شعر ہے اسد علی وفی الحروب نعامتہ دشمن کے مقابلے میں شتر مرغ اور میرے مقابلے میں شیر۔ دشمن کے سامنے جاتے ہیں تو مونچھیں نیچی ہمارے سامنے آتے ہیں تو مونچھیں اونچی۔ ہم کو کیوں ڈراتے ہو ؟ ہم تو پہلے ہی ڈرے ہوئے لوگ ہیں۔ مولوی تو بے چارے پہلے ہی مارے ہوئے ہیں۔ ان کو کیوں مارتے ہو ؟ مرے کو مارے شاہ مدار بہادری ہے تو دشمن سے لڑو۔ اندرا گاندھی زندہ تھی ناں۔ حملے کا خطرہ پیدا ہوا۔ ڈر تھا کہ حملہ ہو جائے گا۔ اخباروں نے بھی چھاپا کہ پندرہ نومبر تاریخ مقرر ہو گئی ہے۔ ہر روز اس کو مالش کرتے تھے نہیں ہمارے تو اس کے ساتھ بڑے تعلقات ہیں ہم تو لڑنا چاہتے ہی نہیں۔ ہم تو بالکل صلح کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ اور منافقت کا یہ حال ہے جب مر گئی تو اتنے لمبے چوڑے بیان اخبارات میں چھپے ہیں جس طرح ان کی پھوپھی فوت ہو گئی ہے۔ بڑا افسوس کیا ہے۔ ہمیں بڑا غم ہے بڑا دکھ ہے۔ سارے لوگوں کے بیان اخبار میں چھپے ہیں۔ اور میں ہنسا