کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 54
ایک اور روایت کے اندر آیا ہے حدیث کی کتابوں میں لکھا ہے سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ ابوجہل کی گردن جب کٹنے لگی تھی تو اس نے افسوس کے ساتھ کہا ہائے میں ان لوگوں کے ہاتھوں مارا جا رہا ہوں جن کو لڑنے کا طریقہ بھی نہیں آتا تھا یہ وہ لوگ تھے جو لڑنا نہیں جانتے تھے کمزور تھے۔ لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے معاشرے کو گناہوں سے پاک کیا۔ انہیں جرائم سے روکا ان کی روحوں کو بالیدگی بخشی ان کے دلوں کو پاک کیا ان کی نگاہوں پر پہرے بٹھائے ان کے خیالات پر قدغنیں عائد کیں انہیں دنیاوی لذتوں سے ہٹا کے اخروی لذتوں کا مزا عطا کیا۔ پھر یہ دنیا کی بزدل ترین قوم دنیا کی سب سے بہادر قوم بن گئی۔ پھر کبھی یہ سوال پیدا نہیں ہوا کہ جن سے مقابلہ ہو رہا ہے وہ بڑے لوگ ہیں یا ان کی تعداد زیادہ ہے۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مبارک کے اندر بھی ایک وقت ایسا آیا کہ انہی عربوں کے اوپر اسی طرح حملہ ہوا جس طرح ان کے اباؤ اجداد پہ حملہ ہوا تھا۔ جس طرح ان کے باپ دادا پہ مکہ میں حملہ ہوا اسی طرح ان کے اوپر مدینہ طیبہ میں حملہ ہوا۔ دشمن اس وقت ہاتھی لے کر آیا تھا اور آج اپنا سب سے بڑا لشکر لے کے آیا اور آپ پڑھے لکھے لوگ سن کر حیران رہ جائیں کہ پوری دنیا کی تاریخ میں اور آج اس واقعے کو چودہ سو برس گزر گئے ہیں آج جبکہ لوگوں کے پاس بے پناہ فوجیں ہیں لاکھوں کی تعداد میں ہر ملک کے پاس فوجیں ہیں آج تک تاریخ کے اندر کبھی ایسا واقعہ نہیں ہوا کہ اتنی چھوٹی بستی پر اتنے بڑے لشکر نے کبھی حملہ کیا ہو۔ اس وقت مدینہ طیبہ کی کل آبادی پانچ چھ ہزار آدمیوں پر مشتمل تھی اور حملہ آور چوبیس ہزار کا لشکر جرار لے کے آئے تھے۔ رحمت کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو اور ان یہودیوں کو جن سے آپ کا معاہدہ تھا کہ ہم پہ حملہ ہوا تو تم ہماری مدد کو نکلو گے تم پہ حملہ ہوا تو ہم تمہاری مدد کے لئے نکلیں گے حکم دیا کہ دشمن کے مقابلے کے لئے نکلو۔ لوگ نکلے مدینہ کے دروازوں پہ پہنچے تو تعداد کو گنا گیا۔ تین ہزار آدمی۔ ان میں مسلمان بھی تھے اور غیر مسلم بھی جن کا حضور سے معاہدہ تھا۔ تین ہزار اور مقابلے میں چوبیس ہزار۔ مسلمان بے سرو سامانی کا شکار تھے۔ سرور گرامی علیہ الصلوٰۃ والسلام جب اپنے ساتھیوں کی تعداد کو دیکھتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ غیر مسلم کھسک رہے ہیں۔ یہودیوں نے جب یہ سنا کہ چوبیس ہزار کا لشکر آیا