کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 53
ہمیں بتلانا وہ کون ہے ہمیں اسکی ذرا شکل تو دکھاؤ؟‘‘ فرمایا میں نے تعجب سے ابھی بچے کی طرف دیکھنے کا ارادہ کیا کہ دوسری طرف سے میرے دامن کو ایک نے پکڑ لیا۔ اس نے کہا ہاں ہاں ہمیں خبر دو کہ ابوجہل کونسا ہے؟ فرمایا اس طرف دیکھا چودہ سال کا بچہ اس طرف دیکھا پندرہ سال کا بچہ۔ میں نے کہا ’’بھتیجو تم کیوں پوچھتے ہو؟‘‘ کہا ہماری ماں نے ہمیں بتلایا ہے کہ ابوجہل وہ ہے جو کائنات کے شہنشاہ کو گالیاں دیا کرتا تھا جو حضور کو برا کہتا ہے۔ افرعہ تیری قبر پہ رب کی کروڑوں رحمتیں نازل ہوں۔ تو نے کیسے شیروں کو جنم دیا ہے۔ عبدالرحمان فرماتے ہیں ’’بیٹو ٹھیک ہے تمہاری ماں نے تم سے یہ کہا ہے۔ لیکن اگر تمہیں اس کا علم ہو جائے تو تم کیا کرو گے؟‘‘ کہنے لگے چچا یہ نہ پوچھو۔ تم ہمیں صرف بتلا دو کہ وہ کونسا ہے؟ فرمایا میں نے اپنے گھوڑے پہ سوار عرب کے نامور بہادر مکہ کی فوجوں کے کمانڈر کی طرف اشارہ کیا کہ یہ جوان رعنا ابوجہل ہے۔ کہا میری زبان سے لفظ بعد میں نکلے بچے پہلے دوڑ گئے۔ میدان گرد و غبار سے اٹ گیا اور جب میدان سے گرد و غبار چھٹا میں نے دیکھا کہ دونوں پیدل بچوں نے گھوڑے پہ سوار ابوجہل کو نیچے کھینچ رکھا ہے۔ اس کی گردن کٹ چکی اور دونوں بچوں کی تلواروں سے خون ٹپک رہا ہے اور ایک کہتا ہے دشمن رسول کو میں نے قتل کیا ہے۔ دوسرا کہتا ہے اس کی گردن کو میں نے قلم کیا ہے۔ لوگو وہ کون سا جذبہ تھا جس نے ان چھوٹے چھوٹے بچوں کے اندر بجلیاں بھر دیں؟ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہوا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ افرعہ تیرے نصیبے کا کیا کہنا کہ تیرے بچے اس جنگ میں شریک ہوئے جس جنگ کے سارے شرکاء کو اللہ نے جنت کی بشارت عطا فرما دی ہے۔ وہ کون سا جذبہ تھا؟ کون سی بات تھی؟