کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 52
ہیں یہ بہت بڑا ملک ہے ہم سے اس کا مقابلہ نہیں ہو سکتا۔ بندہ پوچھے کہ اس وقت پاکستان کے دو ہی دشمن ہیں۔ ایک روس ہے‘ ایک ہندوستان ہے۔ دونوں سے تم مقابلہ نہیں کر سکتے تو پھر مقابلہ ہم سے کرنا ہے؟ پھر کس کے مقابلے کے لئے تیاری کر رہے ہو؟ روس سے تم مقابلہ نہیں کر سکتے ہندوستان سے تم مقابلہ نہیں کر سکتے اب ریفرنڈم کرکے ہمارا مقابلہ کر لو۔ یہی مطلب ہوا ناں؟ یہ ایف سولہ طیارے ہمارے لئے لے رہے ہو؟ سبب کیا ہے؟ رونے کی بات ہے ہنسنے کی بات نہیں ہے۔ رونے کی بات یہ ہے کہ ہمارے گناہوں نے ہم کو اتنا بزدل کر دیا ہے کہ ہماری نظر زمین کی سطح سے اوپر نہیں اٹھتی اور زمین کی سطح سے جب اوپر نہیں اٹھتی تو پھر لامحالہ ہمیں روس کے ٹینک اور ہندوستان کی فوجیں نظر آتی ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح مکہ کے قریشیوں کو ابرہہ کے ہاتھی نظر آتے تھے۔ وہ سوچتے تھے ہم ان ہاتھیوں کا مقابلہ کیسے کریں؟ آسمان سے رحمت کی برکھا برسی۔ رب کائنات نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کائنات میں رحمت بنا کے بھیجا۔ دنیا کے اندر انقلاب آگیا۔ پہلے دن ہی جب آپ کی ولادت باسعادت ہوئی آپ کی اس کائنات میں تشریف آوری ہوئی ایران کے آتش کدوں میں ہزاروں سال سے جلنے والی آگ بجھ گئی کہ آج ماں کے گھر دلیر بچہ پیدا ہوا ہے۔ دنیا کے اندر انقلاب آگیا۔ پھر وہی بزدل قوم جس کو کبھی یمن والے لوٹتے تھے اور کبھی ہیرہ والے جس پر کبھی غزا سنا اپنا حکم چلاتے تھے اور کبھی رومیوں کے ادنی غلام وہی قوم اس قدر طاقت ور بن گئی کہ اپنے سامنے مکہ کے عظیم لشکر کو کھڑا دیکھتی ہے اور ان کا سپہ سالار مکہ کا گرامی پہلوان عرب کا نامور شاہسوار مکہ کی فوجوں کا کمانڈر سینہ تانے گردن اٹھائے اپنی صفوں کو درست کرتا ہوا نکلتا ہے۔ اس طرف سے چودہ اور پندرہ سال کے بچے اسے حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس کی کیا حیثیت ہے؟ اور ایک بچہ جناب عبدالرحمان کے دامن کو تھام کے کہتا ہے ’’چچا ابوجہل کے متعلق تو