کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 51
لتھڑی ہوئی کوئی دوسری قوم نہ تھی۔ ہر قسم کے عیب ان کے اندر موجود تھے۔ بزدلی کا عالم یہ تھا کہ مکہ والوں نے مدتوں سے کبھی آزادانہ زندگی نہیں گزاری تھی۔ کبھی یمن کے بادشاہ انکو اپنا غلام بنا لیتے۔ کبھی ہیرہ کے تاجدار کبھی روم کا شہنشاہ کبھی کسی دوسرے کا نمائندہ ان پر حکومت کرتا۔ ان کو آزادانہ زندگی گزارنے کا موقع میسر نہیں تھا۔ اور پھر ایک دفعہ جب ابرہہ ان کی سب سے مقدس بستی پر ہاتھیوں کو لے کر چڑھائی کرنے آیا تو وہ بجائے اس مقدس شہر کی حفاظت کے اس شہر کو خالی چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ کعبے کی حفاظت کے لئے لڑنا بھیگوارہ نہیں کیا اور جب کہنے والے نے کہا کعبہ چھوڑ کر کہاں جاتے ہو اس کی حفاظت کے لئے کیوں خون دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے دشمن کا مقابلہ کیوں نہیں کرتے اپنی بستی کے دفاع کے لئے کیوں نہیں لڑتے؟ تو انہوں نے جواب دیا ہم اپنی بستی کی حفاظت نہیں کر سکتے۔ جس کا گھر ہے وہ خود اپنے گھر کی حفاظت کرلے گا۔ یہ کمزوری کی انتہا تھی ناتوانی کی انتہا تھی۔ سبب ؟ سبب وہی تھا۔ کونسا گناہ تھا جو ان کے اندر موجود نہ تھا؟ ہر قسم کا جرم اس کایہ ارتکاب کرتے تھے۔ آج اس پس منظر میں ہم اپنے آپ کو اور اپنے ملک کو دیکھیں۔ کیا کہیں ہماری بھی یہی کیفیت تو نہیں ہوگئی؟ آج ہمارے بھی بڑے بڑے معزز لوگ ان کی کمائیاں خالص حرام رزق پر ہیں۔ بڑے بڑے چوہدری سرمایہ دار لوگوں کی نگاہوں میں عزت پانے والے ان کے روزگار پر نظر ڈالی جائے تو شریف آدمی کو پسینہ آ جاتا ہے۔ جوا چور بازاری سود خوری رشوت بدکاری اس قدر عام ہے کہ شاید جاہلیت کے دور میں بھی اس قدر عام نہ ہو۔ اور اس کا نتیجہ؟ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کے حکمران اس ملک کو جو دونوں طرف سے دشمنوں سے گھرا ہوا ہے ان کے مقابلے میں ہر روز ہمیں یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ ہم روس کا مقابلہ نہیں کر سکتے روس بڑا ملک ہے۔ پچھلے دنوں بیان پڑھا ہے کہ نہیں؟ صدر (ضیاء الحق) صاحب کا بیان چھپا ہے۔ ہم روس کا مقابلہ نہیں کر سکتے روس بڑا ملک ہے۔ ہندوستان‘ اس کے متعلق بھی کہتے