کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 48
کائنات پہ ابر رحمت بن کر چھا گئے۔ آؤ! نبی کی یاد منانی ہے نبی کا تذکرہ کرنا ہے نبی کو عقیدت کے پھول پیش کرنے ہیں نبی کی بارگاہ میں گلہائے ناز پیش کرنے ہیں تو اس فرمان کو یاد کر کے کرو جس فرمان کو لے کر غار حرا سے اتر کر کوہ صفا پہ چڑھ کر اس نے پہلے دن یہ نعرہ رستہ خیز بلند کیا تھا۔ قولوا لا الہ الا اللّٰه اور جو اس فرمان کا تذکرہ نہیں کرتا اس کے مطابق اپنے اعمال کو تبدیل نہیں کرتا مجھے معاف کر دو وہ رسول اللہ کا مدح خواں نہیں ابن عبد اللہ کا مدح خواں ہے وہ رسول اللہ کا عقیدت مند نہیں وہ ابن عبد اللہ کا عقیدت مند ہے وہ آسمان کی بلندیوں کو چھونے والے کا غلام نہیں مکہ میں بسنے والے کا غلام ہے اور میں نے اس نبی کو اپنا آقا مانا ہے کہ جس کا نام عرش کی بلندیوں پہ لکھا ہوا ہے اور کب لکھا گیا؟ تب لکھا گیا جب پہلے اس فرمان کا اعادہ ہوا۔ لا الہ الا اللہ۔ بعد میں لکھا گیا محمد رسول اللہ۔ جس نے اس بلندی کو نہیں مانا اس نے پہلے فرمان ہی کو نہیں مانا ہے۔ پہلے یہ مانو پھر اس کی بلندی کا اقرار کرو۔ پھر جانو کہ ہم اس کے غلام ہم اس کے پیرو کار ہم اس کے عقیدت مند ہم اس کے ثناء خواں ہم اس کے چاہنے والے جس کا نام عرش کی بلندیوں پہ لکھا گیا اور کب لکھا گیا ؟ جب غار حرا میں اللہ کا سب سے مقرب درباری رب کا یہ فرمان لے کر آیا تھا۔ اِقْرَا بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ، خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ، اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ، (۴۔ سور العلق ۱‘۳) واخر دعوانا ان الحمد للّٰه رب العلمین