کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 47
عرب بھی تمہارا عجم بھی تمہارا امریکہ بھی تمہارا روس بھی تمہارا۔ یہ کوئی نئے ملک ہیں ؟ پہلے بھی تھے ہمارے تھے۔ کب تھے ؟ جب قبریں نہ تھیں۔ کب تھے ؟ جب خانقاہیں نہ تھیں۔ کب تھے ؟ جب گورکن نہ تھے۔ کب تھے ؟ جب کعبے کے برہمن نہ تھے اور جب یہ سب ہوئے پھر کچھ بھی نہیں تھا۔ عرب کے بدوؤں نے یہ سبق پڑھا اور پھر کائنات پہ ابر رحمت بن کے چھائے۔ اس طرح چھائے کہ عقبی ابن نافع بحر ظلمات کے سامنے اپنا گھوڑا روک کر اپنے سپاہیوں کو رکنے کا اشارہ کر کے ایک اونچے ٹیلے پہ چڑھ گئے۔ کوئی خشکی کا نشان… کہاں سے نظر آئے ؟ گھوڑے سے اترے سر سجدے میں رکھا۔ لا الہ الا اللّٰه ایک اللہ سامنے پانی ہی پانی کوئی زمین کا کنارہ نظر نہیں آتا۔ اگر مجھے پتہ ہو کہ ان سمندروں کے پار بھی کوئی مخلوق ہے تو تیری کبریائی کی قسم ان گھوڑوں کو سمندروں میں ڈالوں تو ان کو جہاز بنا دے اور تب تلک چلتا رہوں جب تلک زمین کا ایک ٹکڑا باقی بچے اور اس وقت رکوں جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پرچم اس زمین کے ٹکڑے پر لہرالوں۔ قولوا لا الہ الا اللّٰه تفلحوا تملکوا العرب والعجم آج سب کچھ یاد رہا وہ فرمان یاد نہ رہا جس نے اس کائنات میں ایک نئے انقلاب کی بنیاد رکھی تھی۔ اس لئے کہ ہم اب انقلابوں کے خوگر نہیں رہے۔ ہماری رگوں کا لہو مردہ پرستی نے جما کے رکھ دیا ہے۔ زندگی کہاں ہے؟ مردوں سے ڈرنے والے کبھی زندہ کہلانے کا حق رکھتے ہیں؟ کوئی سوچو تو سہی۔ مردوں سے ڈرنے والے اپنے آپ کو زندہ سمجھتے ہیں؟ خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا زندہ وہ تھے جنہوں نے اس فرمان کو سنا اور الا اللہ کی ضرب کاری لگاتے ہوئے پوری