کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 45
ہم نے نہ قبر کو مانا نہ حجر کو مانا نہ شجر کو مانا نہ سایہ خود کو مانا نہ کسی درخت کو مانا نہ چاند کو مانا نہ سورج کو مانانہ دم دار ستارے کو مانا۔ ہم نے مانا تو کس کو مانا؟ لا الہ الا اللّٰه یہ وہ فرمان تھا جس نے ابن عبد اللہ کو رسول اللہ بنایا تھا۔ قولوا لا الہ الا اللّٰه لیکن کون ہے جو بات کرے؟ جس نے اپنی آستینوں میں بت چھپا رکھے ہوں جو ہر روز منوں عطر کی بوتلوں سے اپنے ہاتھ سے بنائی ہوئی خانقاہوں کو غسل دیتا ہو جو پتھروں کو دھوتا ہو جو مردوں کو پوجتا ہو جو تکیوں میں بیٹھتا ہو جو بے نواؤں سے حاجتیں طلب کرتا ہو۔ وہ کہے تو کیسے کہے ؟ آئے صدا کہاں سے آئے ؟ آئے گی تو اس دل سے آئے گی۔اس لئے آئے گی کہ ہم نے کبھی اس دل کو صنم کدہ بننے دیا ہی نہیں ہے۔ ہم نے اس دل میں کبھی کوئی بت سجایا ہی نہیں ہے۔ ہم نے اس دل میں کبھی کسی مورتی کو رکھا ہی نہیں ہے۔ ہماری نظر پڑی تو اس رات پہ پڑی جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تاجپوشی ہو رہی تھی۔ جب یہ کہا جا رہا تھا سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ۔(سورۃبنی اسرائیل:۱) جس کو تم نے متبرک نہیں بنایا ہم نے متبرک بنایا ہے۔ اس لئے متبرک بنایا ہے کہ وہ سجدہ گاہ ہے قبر گاہ نہیں ہے۔ اس لئے متبرک بنایا ہے کہ انبیاء سر رکھتے ہیں جسم نہیں رکھتے۔ اس لئے متبرک بنایا ہے کہ یہاں لا الہ الا اللہ کی صدا گونجی ہے۔ یہاں ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی جمع ہیں۔ اس بات کی شہادت کے لئے کہ آج ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا امام بنا رہے ہیں ابن عبد اللہ کو نہیں۔ تم اس چکر سے نہیں نکلے۔ کیسے نکلو؟ جس کی فرمان پہ نگاہ نہ پڑی ہو جس نے فرمان کو نہ سمجھا ہو اس کی نگاہ اگر نہیں پڑتی تو وہ قصور وار نہیں ہے۔