کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 44
و محور اس فرمان کو بنا لیا جس فرمان نے آ کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا اونچا کیا کہ آسمانوں کا سردار محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں کے اندر رکھی ہوئی رکاب کو تھامنے پر مجبور ہو گیا۔ تم نے بات کی ؟ تم نے پیروں کی بات کی ہم نے سر کی بات کی۔ تم نے پلکوں کی بات کی ہم نے نظر کی بات کی۔ تم نے دنیا کی چودہراہٹ کی بات کی ہم نے آدم و ابراہیم کی امامت کی بات کی۔ تم نے زمین کی تنگیوں کی بات کی ہم نے آسمان کی وسعتوں کی بات کی۔ تم نے سری کی پستیوں کی بات کی ہم نے ثریا کی بلندیوں کی بات کی۔ تم نے زمین کے رنگوں کی بات کی ہم نے کہکشاؤں کے رنگوں کی بات کی۔ ہم نے کہا زمین کی طرف کیا دیکھتے ہو؟ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں سے اڑنے والے گرد و غبار کو دیکھو۔ براق سے نکلنے والے ذرات کو دیکھو کہ جب براق چل رہا تھا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پیچھے سارے کہکشاؤں کو چھوڑ کر آگے جا رہا تھا۔ تم نے جب بھی بات کی بشری اوصاف کی بات کی۔ تمہاری نگاہ میں بہت بڑی بات تھی کہ اس نے کالی کملی اوڑھی ہوئی تھی۔ تم نے جب بھی بات کی کبھی کمبل کی بات کی کبھی کملی کی بات کی اور ہم نے جب بھی بات کی یا سراج کی بات کی یا بشیر کی بات کی یا نذیر کی بات کی۔ تمہارے سارے اوصاف خاک کے ہمارے سارے اوصاف افلاک کے۔ تمہارے سارے اوصاف پستیوں کے ہمارے سارے اوصاف بلندیوں کے تمہارے سارے اوصاف محکومیوں کے ہمارے سارے اوصاف حاکمیت کے۔ ہم نے کہا آؤ اس فرمان کو یاد کرو۔ وہ فرمان کیا تھا ؟ قولوا لا الہ الا اللّٰه ہم نے اپنی بات کی تم نے اپنی بات کی۔ تم نے فرمان کی بات نہ کی کہ قدم قدم پہ خدا سجا رکھے تھے۔ ہم نے فرمان کی بات کی اس لئے بات کی کہ میلوں تک ہمارے گرد کوئی خدا نظر نہیں آتا ہے۔ ہم کس کو مانیں؟