کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 438
تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پہ نچھاور کر دوں۔ ایک جان کو کہتے ہو بچالوں ۔ کہا ہم یہ نہیں کہتے کافر ہو جاؤ اسلام چھوڑ دو پلٹ آؤ۔ کہتے ہیں صرف یہ کہہ دو جہاں میں کھڑا ہوں کاش میری جگہ میرا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کھڑا ہوتا۔ کہا میں تو چاہتا ہوں میری گردن کٹ جائے اور میرے آقا کے پاؤں میں کانٹا بھی نہ چبھے۔ تم نے کیا جانا؟ لالچ بھی اور خوف بھی دونوں آ جائیں۔ جو جی چاہے کرلیں۔ نہ لالچ ورغلا سکا نہ خوف ڈرا سکا۔ ماسوا للہ سے بے نیاز ہو۔ پرواہ ہی نہیں جو جی چاہے کر لو۔ سمیہ ایک بڑھیا عورت جوان بیٹے کی ماں مادر زاد ننگی کر دی گئی۔ برہنہ خاوند بھی برہنہ اور بیٹا بھی سامنے برہنہ تینوں کے ہاتھ پاؤں باندھ دئیے گئے اور تپتے ہوئے ریگ زار پہ لٹا دیا گیا اور کہا گیا پلٹ آؤ۔ کہا اگر آج کی ریت کا یہ عذاب آخرت کے عذاب سے بچا لے تو سودا مہنگا نہیں ہے۔ کس بات سے پلٹ آئیں۔ پھر بڑھیا کو دو اونٹوں کی کوہانوں سے باندھا گیا۔ ایک ٹانگ ایک اونٹ کے ساتھ دوسری ٹانگ دوسرے اونٹ کے ساتھ۔ ایک کا رخ مشرق کی طرف ایک کا مغرب کی طرف۔ ابوجہل نیزہ اٹھائے ہوئے آیا۔ کہا سمیہ جانتی ہو تیرا انجام کیا ہونے والا ہے؟ کہا ابوجہل میرے انجام کو نہ پوچھو۔ اپنے انجام کی فکر کرو کہ اس کے بدلے میں قیامت کو تیرا انجام کیا ہونے والا ہے۔ میرے انجام کو کیا پوچھتے ہو۔ یہ چند لمحوں کی زندگی تو گزر جائے گی۔ اس انجام کو کیا پوچھتے ہو؟ اس انجام کو سوچو جو انجام کبھی ختم نہیں ہو گا۔ کہا پلٹ جاؤ۔ کہا ابوجہل جس جنت کو میں دیکھ رہی ہوں تو دیکھ رہا ہوتا تو نہ جانے تیرا کیا حشر ہوتا؟ تو مجھ کو پلٹنے کو کہتا ہے کوئی جنت دیکھ کے بھی جنت سے پلٹ آتا ہے؟ تو نے جنت کو دیکھا ہی نہیں ہے۔ میں تو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہوں۔ وہ سامنے نظر آرہی ہے کہ مولائے کائنات کہہ گئے تھے صبرا آلَ ياسرٍ موعِدُكم الجنَّةُ ایک دن پہلے کی بات تھی کو نبی نے ان کی تپتی ہوئی ریت پہ ننگے تڑپتے ہوئے دیکھا اور کہا