کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 437
کر اکیلا ہی دشمنوں کو مار کے بھگا دیتا ہے۔ اللہ وہ ہے۔
مَا قَدَرُوا اللَّـهَ حَقَّ قَدْرِهِ
تم نے اللہ کو پہچانا ہی نہیں۔ اگر اللہ کو پہچانا ہوتا تو رب کو چھوڑ کر کسی دوسرے کے دروازے پہ جانے کی ضرورت نہ پڑتی۔ پھر کیا ضرورت تھی؟
آج سب کچھ رہ گیا ہے استقامت نہیں رہی
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ
کہ اس میں دوچار بہت سخت مقام آتے ہیں۔ یہ منزل ذرا مشکل ہے۔ تھوڑے سے مرحلے اس میں طے کرنے پڑتے ہیں۔ مرحلے طے کرنے کے لئے ہم تیار نہیں۔ تھوڑی سی چکا چوند ہماری آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے تھوڑی سی گرج ہمارے دلوں کو دہشت زدہ کر دیتی ہے تھوڑا سا خوف ہمیں گھبرا دیتا ہے تھوڑا سا لالچ ہمیں ورغلا لیتا ہے۔
ہماری حالت کیا ہے؟ ہم مومن ہیں؟
مومن وہ تھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بندے پر ناراض ہوئے بائیکاٹ کر دیا۔ اس وقت مدینے کی بستی معمولی سی تھی۔ مدینے کا ملک چھوٹا ساتھا۔ روم کا بادشاہ اس آدمی کو پیغام بھیجتا ہے جس سے ناراضگی ہوئی ہے۔ او مدینے کی چھوٹی سی ریاست کی ناراضگی کا کیا ہے؟ آجاؤ میرے پاس آجاؤ۔ میں اپنی بیٹی تمہیں دینے کے لئے تیار بادشاہت کا حصہ دینے کے لئے تیار دولت دینے کے لئے تیار مال دینے کے لئے تیار ہوں۔ مومن )ب تک آنکھوں سے آنسو نہیں ٹپکے تھے جب یہ بات سنتا ہے رونا شروع کر دیتا ہے اللہ میں اتنا گیا گزرا تو نہیں کہ دنیا کے مال پہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو چھوڑ دوں گا۔ یہ کیا ہے کو نین کی دولت بھی اگر میری راہ میں بچھا دی جائے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پلٹ کے دیکھنا بھی گوارہ نہیں ہے۔
اور ایک خبیب سولی پہ لٹکا ہوا۔ ادھر لالچ ہے ادھر خوف۔ سولی پہ چڑھا دیا گیا۔ میخیں گاڑ نے کے لئے جلاد تیار ہو گئے۔ نیزہ کی نوک سینے پہ رکھ دی گئی۔ کہا خبیب اب بھی وقت ہے جان بچانا چاہو تو بچا سکتے ہو۔ کہا کیسے بچالوں؟
کہا زبان سے ایک مرتبہ کہہ دو کفر نہیں شرک نہیں اتنی بات کہہ دو کاش آج میری جگہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سولی پہ لٹکا یا جائے۔ آنکھیں بند کرلیں فرمایا ظالمو یہ تو ایک جان ہے اگر سو جان ہو