کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 432
عرش والے نے کہا کائنات سے نہ ڈرو رب کائنات سے ڈرو۔ کائنات والے کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے مسلمانو یاد رکھو استقامت کا معنی بڑا وسیع ہے۔ ہر چیز سے نہ خوف نہ لالچ نہ ڈر کر اللہ کے دین کو چھوڑو نہ لالچ میں آکے اللہ کے دین کو چھوڑو اور جو رب کے لئے بھوکا مرنے کو تیار ہو جاتا ہے رب اسے بھوکا مرنے نہیں دیتا۔ پھر عرش والا اسے بھوکا نہیں مرنے دیتا۔ کیونکہ اللہ وہ ہے تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ اللہ کی قسم ہے اصل بات یہ ہے کہ ہم نے اللہ کی صفتوں کو سمجھا ہی نہیں ہے۔ ہم نے اللہ سمجھا ہے صرف عبادت کے لئے جس کے سامنے سجدہ کرتے ہیں ماتھا ٹیکتے ہیں۔ بس یہ اللہ ہے۔ ہمیں نہیں پتہ عطا کرنے والا بھی اللہ چھیننے والا بھی اللہ دینے والا بھی اللہ لینے والا بھی اللہ سننے والا بھی اللہ اور پکار کو پہنچنے والا بھی اللہ۔ ہمیں یہ معلوم نہیں ہے۔ ہمیں اللہ کی صفتوں کا علم نہیں۔ آج لوگوں کو یہی پتہ ہے کہ اللہ اس کو کہتے ہیں کہ مسجد میں جا کے جس کے سامنے ماتھا ٹیکتے ہیں۔ باقی نفع بینکوں کے پاس ہے نقصان حکومت کے پاس ہے۔ اللہ کہاں گیا ہے ؟ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس اللہ سے ہمیں آشنا کیا ہے وہ کون ہے؟ لا مانِعَ لمَا أعطَيتَ، ولا مُعطيَ لمَا مَنَعتَ، ولا يَنفَعُ ذا الجَدِّ مِنكَ الجَدُّ دینے والا بھی تیرے سوا کوئی نہیں لینے والا بھی تیرے سوا کوئی نہیں۔ یہ نبی کا اللہ ہے۔ بچپن میں قصوں میں بھی پڑھا ہے۔ مشہور واقعہ ہے۔ نبی پاک سوئے ہوئے تھے۔ ایک کافر آیا آپ کی درخت سے لٹکی ہوئی تلوار کو اٹھایا۔ اس کو میان سے باہر نکالا اور سوئے ہوئے نبی کی گردن پہ رکھ دی نبی کی آنکھ کھل گئی قتل کا ارادہ لے کے آیا۔ کہا من ینقذک من یدی؟ من یقیک منی؟ آج اتنی موت قریب ہے۔ صرف دباؤ کا فاصلہ باقی ہے۔ گردن پہ رکھی ہوئی شہ رگ پہ رکھی ہوئی تیز تلوار من یقیک منی اے محمد آج تجھ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ استقامت کا معنی سمجھو۔ جب تک امتحان دور ہے تب تک ہم مسلمان ہیں۔ جب