کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 431
روپے کا کاروبار شروع کر رکھا ہے سوچتا ہے اگر بیس لاکھ روپیہ اور مل جائے تو کاروبار دس گنا ہو جائے گا۔ انسان بائیسکل موٹر سائیکل رکھے ہوئے ہے سوچتا ہے اگر گاڑی آجائے گی تو عزت میں اضافہ ہو جائے گا۔ وسائل اپنے پاس نہیں ہیں سوچتا ہے اگر بینک سے قرضہ لے لوں اگر کسی سے سود پر ٹریکٹر لے لوں اگر کسی سے سود کی بنیاد پر مارک اپ کروا لوں اور مشین منگوا لوں دس فیصدی دینا پڑے گا پچاس فیصدی کما لوں گا۔ لالچ آگیا اللہ کو چھوڑ کر شیطان کے راستے پر چل کر لالچ میں حلال کو حرام میں تبدیل کر لیا۔ اس آدمی نے استقامت کی راہ کو اختیار نہیں کیا ہے۔ کھانے کو کچھ نہیں ہے۔ محنت کر کے کماتا ہے۔ مشکل سے اپنی اولاد کا پیٹ بھرتا ہے۔ پڑھا لکھا ہے یا کاروباری ہے۔ جانتا ہے لاکھ روپیہ ہو جائے میرے حالات سدھر جائیں گے لیکن لاکھ روپیہ پاس موجود نہیں۔ بچے بڑی مشکل سے گزارا کرتے ہیں آفر ہوتی ہے آؤ ہم سے لاکھ روپیہ سود کا لے لو۔ استقامت کس کو کہتے ہیں ؟ إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّـهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا اپنی آنکھیں بند کر کے اپنے پاؤں کی نوک آگے کر دیتا ہے۔ کہتا ہے میں اللہ کے سوا کسی کو نفع نقصان دینے والا نہیں سمجھتا ہوں۔ شرک ہے۔ بات کو یاد رکھنا۔ لوگ سمجھتے ہیں صرف قبروں کی پوجا کرنا شرک ہے۔ یہ بھی شرک ہے کہ اس نے رب کے حلال کو کافی نہیں سمجھا لالچ میں آکے غیر اللہ کی طرف چلا گیا۔ اللہ نے سود سے روکا۔ غیر اللہ نے سود کی اجازت دی۔ اس نے رب کو نفع نقصان کا مالک نہ سمجھا غیر اللہ کو سمجھا۔ رب کو نفع و نقصان کا مالک سمجھتا تو غیر اللہ کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ بھوکا مر جائے۔ عرش والے کی طرف نگاہ اٹھا کے کہے اللہ تیری کبریائی کی قسم ہے بھوکا مر جانا گوارہ ہے اولاد کو حرام کھلانا گوارہ نہیں ہے۔ اس کا نام استقامت ہے۔ لوگ استقامت کا معنی ہی نہیں سمجھتے۔ عقیدہ درست رکھو۔ نہ لالچ ڈرائے نہ لالچ بہکائے نہ ڈر راستے سے ہٹائے۔ توحید اس کا نام ہے۔ لالچ میں پھسل جائے تب بھی توحید نہیں اور ڈر سے پگھل جائے تب بھی توحید نہیں۔ غیر اللہ سے بے نیاز ہو۔ ایمان حق اختیار کیا ہے۔ ڈرتا ہے لوگ کہیں گے وہابی ہو گیا ہے۔ کس سے ڈرتے ہو ؟ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَاخْشَوْنِیْ(سورۃالبقرہ:۱۵۰)