کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 430
بھائیو اور دوستو !آج باوجود اس کے کہ میری طبیعت بے انتہا خراب تھی۔ روز روز کے جلسوں اور سفروں نے مجھے تھکا کے رکھ دیا ہے۔ جس کو کہتے ہیں ناں کہ کمر توڑ دی ہے وہ حال ہو گیا ہے لیکن اس کے باوجود میں نے چاہا کہ شاید اللہ کی رحمت اور فضل و کرم سے اس مسجد میں یہ آخری خطبہ[1] جمعہ ہو آپ حضرات کو آج آخری دفعہ یہاں بات کرتے ہوئے اللہ کی توفیق سے بیس سال کی تبلیغ کا خلاصہ بیان کر دوں۔
یاد رکھئے گا ساری گفتگوئیں ساری تبلیغیں سارے جمعے کے خطبات سارے جلسے سارے درس ساری تقریریں ان کا ماحاصل یہ ہے کہ انسان ایمان کی راہ کو اختیار کر کے استقامت کو اختیار کرے اور استقامت نام ہے ماسوا اللہ سے بے نیاز ہو جانے کا۔ ماسوا اللہ کے اندر محلے دار بھی ہیں ساہو کار بھی ہیں تھانیدار بھی ہیں اقتدار والے بھی ہیں اختیار والے بھی ہیں دین والے بھی ہیں دنیا والے بھی ہیں پیر بھی ہیں فقیر بھی ہیں کاروبار بھی ہیں دولت و مال بھی ہے۔ ان ساری چیزوں سے بے نیاز ہو کے بندہ ایک اللہ کو اپنا رب بنا لے اس کو استقامت کہتے ہیں۔
استقامت کا معنی کیا ہے؟
کاروبار چل رہا ہے فیکٹری چل رہی ہے کھیت گاہے جا رہے ہیں غیر اللہ آتا ہے اور غیر اللہ صرف قبروں والے نہیں ہیں۔ ہر وہ چیز جو انسان کو ڈرانے والی یا انسان کو لالچ دینے والی ہو وہ غیر اللہ ہے۔ خیال آتا ہے فیکٹری چھوٹی ہے ایک مشین اور لگ جائے آمدن چار گنا ہو جائے گی۔ آج ایک ہزار روپیہ مہینہ آمدن ہے۔ اگر لاکھ روپے کی ایک اور مشین لگ جائے تو دس ہزار روپیہ مہینہ آمدن ہو جائے گی۔ بڑی سے بڑی چیز اور چھوٹی سے چھوٹی چیز اسی مثال پر قیاس کر لو۔ انسان اپنی زمین کی کاشت کر رہا ہے سوچتا ہے اگر ایک بڑا ٹریکٹر اور آجائے تو زمین کی آمدن میں اضافہ ہو جائے گا۔ انسان کرائے کے مکان میں رہتا ہے سوچتا ہے اگر دو لاکھ روپیہ اور ہو جائے تو مکان اپنا ہو جائے گا۔ انسان دوکان کرتا ہے۔ دس لاکھ
[1] کیسا عجیب اتفاق ہے کہ علامہ شہید کے یہ الفاظ الہامی ثابت ہوئے ۔ آپ کا یہ خطبہ جمعہ آپ کی زندکی کا آخری خطبہ ثابت ہوا۔ اس کے تین روز بعد 23مارچ 1987ء کو حادثہ لاہور میں بم کے دھماکے میں آپ شدید زخمی ہو گئے اور 30 مارچ 1987ء کو سعودی عرب میں شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے۔