کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 43
عرش الہی کی بلندیوں سے اوپر گزر چکا ہے۔ تم یہاں بیٹھے ہوئے سارے تذکرے کرتے ہو۔ حسین کوئی تھوڑا ہوتا ہے کوئی بہت ہوتا ہے خوبصورت کوئی کم ہوتا ہے کوئی زیادہ ہوتا ہے زیب نظر کوئی کم دکھائی دیتا ہے کوئی ز یادہ دکھائی دیتا ہے لیکن سلطان عالم اگر بنتا ہے تو ایک ہی بنتا ہے وہ بنتا ہے جس کے سر پہ تاج نبوت رکھ دیا جاتا ہے۔ تم نے سارے جہان کے ان اوصاف کے تذکروں کو اپنے لئے منتہائے نظر قرار دے لیا جن کی کوئی حیثیت اس لحاظ سے نہیں کہ وہ انسان کو زمین کی پستیوں سے اونچا نہیں کر سکتے۔ انسان کتنا بھی خوبصورت ہو جائے اس چھت سے اوپر نہیں جا سکتا کتنا بھی لمبا ہو جائے ہمالہ پہاڑ کی بلندیوں کو نہیں چھو سکتا کتنا بھی سبک رفتار ہو جائے ستاروں کی گزر گاہ سے نہیں گزر سکتا۔ وہ ہمالہ کے پہاڑوں سے بلند اس کا حسن کائنات کے سارے پھولوں سے اونچا اس کی خوشبو مشک ختن سے زیادہ اس کی رفتار نظر کی تیزی سے زیادہ۔ جو اس منصب پر سرفراز ہو جائے جس منصب پہ میں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سرفراز کیا ہے۔ کون تھا؟ وہ فرمان کیا تھا؟ سارا سبق یاد رہا۔ ہم کو کہتے ہو وہابی بشر کہتے ہیں اور بات خود کرتے ہو۔ ہم نے جب بھی بات کی نور کی بات کی۔ تم نے جب بھی بات کی بشریت کی بات کی تم نے جب بھی بات کی زلف کی بات کی تم نے جب بھی بات کی رخسار کی بات کی تم نے جب بھی بات کی دانتوں کی بات کی تم نے جب بھی بات کی ناک کی دھار کی بات کی تم نے جب بھی بات کی پلکوں کی سجاوٹ کی بات کی۔ یہ سارے اوصاف بشر کے۔ ہم نے جب بھی بات کی یا براق کی بات کی یا جبرائیل امین کی بات کی۔ کس نے کس کو کیا مانا ہے؟ تم تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بشریت سے نکالتے ہی نہیں اور میں نورانیت سے واپس لاتا ہی نہیں ہوں۔ فرق یہ ہے تم نے سارا منتہائے نظر بشری اوصاف کو بنا لیا اور میں نے اپنی گفتگو کا مرکز