کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 427
پر چل نکلو گے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دین تمہیں عطا کیا ہے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ تھام لو گے اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال لو گے تو یاد رکھو ساری دنیا کی مخالفتیں تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گی۔ اصل عقیدہ جو لوگوں کے ذہنوں میں آپ نے راسخ کیا وہ یہی عقیدہ تھا کہ اگر آدمی حق کی راہ کو اختیار کر لے اور پھر اس پر استقامت سے ڈٹ جائے تو دنیا کی کوئی مخالفت ایسے حق کا عقیدہ اپنانے والوں کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی۔ لیکن شرط یہ ہے کہ حق اختیار کرتے ہوئے دل میں کوئی تذبذب اور ذہن میں کوئی تزلزل نہ ہو اور حق کو اختیار کرنے کے بعد پھر آدمی پامردی جرات ہمت بہادری اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی بات پہ ڈٹ جائے۔ قرآن حکیم میں اللہ رب العزت نے ایسے ہی لوگوں کا تذکرہ کیا اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا مومن وہ ہے جو اللہ کو ایک مان کر اللہ کو ایک جان کر پھر اس عقیدے پرڈٹ جاتے ہیں۔ یاد رکھئے کسی چیز کو مان لینا یہ اور بات ہے پھر اس بات کا اظہار کرنا یہ اس سے بھی مختلف بات ہے اور پھر اس اظہار پر ڈٹ جانا یہ اس سے بھی آگے کی بات ہے۔ بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو ایک بات کو اختیار کر لیتے اپنا لیتے ہیں لیکن ان کے اندر اس بات کو ظاہر کرنے کی ہمت اور جرات نہیں ہوتی اور بہت سے ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ایک بات کو اپنا لیتے پھر اس کو ظاہر کرنے کی ہمت بھی اپنے اندر پا لیتے ہیں لیکن اس پر ڈٹنے کی توفیق انہیں حاصل نہیں ہوتی ہے۔ ایمان اس کا نام ہے کہ آدمی حق کو اختیار کرے اور اختیار کرنے کے بعد ڈنکے کی چوٹ اس کا اعلان کرے اور اعلان کرنے کے بعد اس پر ڈٹ جائے۔ ایسے آدمی کو مومن کہا جاتا ہے۔ اگر آدمی حق بات کو مانتا ہے اس کا اظہار اور اعلان نہیں کرتا ایسے حق ماننے والے کا حق ماننے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور اگر آدمی اعلان کرنے کے بعد پسپائی اختیار کر لیتا ہے اپنے سچے راستے سے ہٹ جاتا ہے ایسے آدمی کا ایمان بھی اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ فائدہ صرف اسی شخص کا ایمان اسے پہنچاتا ہے جو شخص ایمان کو اختیار کر لینے کے بعد اس کا اظہار کرتے ہوئے پھر استقامت کی راہ اختیار کرتا ہے۔ اگر آدمی سوچے کہ استقامت کی راہ میں کونسی چیز رکاوٹ بنتی ہے تو اسے معلوم ہو گا کہ سب سے بڑی چیز جو رکاوٹ بنتی ہے وہ یا کسی