کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 423
آسمان کے فرشتے تمہارے دروازوں پہ پہرہ دیتے ہیں۔ ہم نے مانا تو اس کو مانا۔ ہم کو تمہاری بات سمجھ میں نہیں آتی۔ اگر تمہیں ہماری بات سمجھ میں آئے کہ جو قران کی بات ہے جو نبی کے فرمان کی بات ہے تو یارو مان لو۔ نہیں مانتے تو ہمارا کیا بگڑتا ہے؟
جائے گا تو تمہارا کچھ جائے گا سنورے گا تو تمہارا سنورے گا۔ ہماری تو پکار یہی ہے۔ اہلحدیث کا نعرہ صرف یہی ہے کہ آؤ تو صرف اللہ کے در پہ آؤ اور سر جھکاؤ تو صرف رب کی بارگاہ میں سر کو جھکاؤ اور دامن تھامو تو صرف والئی بطحا کا تھامو یثرب والے کا تھامو مدینے والے کا تھامو اور دامن وہ دامن کہ جس کے معطر ہونے کا حال یہ ہے کہ ابوہریرہ کہتے ہیں ایک دفعہ دروازے پہ دستک دی۔ اندر سے ام المومنین نے پوچھا کون ہے؟
میں نے کہا حضور کا خادم ابوہریرہ ۔
کہا ابوہریرہ آقا تو گھر میں موجود نہیں ہیں۔
او دامن تھامو تو اس کا تھامو کہ جس کی خوشبو کا عالم یہ ہے کہ ابوہریرہ کہتے ہیں کہ میں دروازے سے پلٹا اور پھر گلی میں آکے کسی سے پوچھا نہیں کہ آقا کہاں گئے ہیں؟ کیوں نہیں پوچھا؟
کہا اس لئے نہیں پوچھا کہ گلی میں آکے سونگھا خوشبو کس طرف سے آرہی ہے؟ جہاں سے خوشبو آرہی تھی اسی طرف چل پڑا۔ مجھے پتہ چل گیا کہ خوشبو اگر پتہ دیتی ہے تو کونین کے شہنشاہ کا دیتی ہے۔
ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے
کہے دیتی ہے شوخی نقش پا کی
میں اس مقام پہ آکے انتہائی خوش ہوا ہوں کہ اللہ تیرا شکر ہے کہ اس بستی میں تونے اپنی توحید کا ایک پودا لگایا ہے اور مجھے کسی دوست نے کہا یہ پودا کمزور ہے۔ میں نے کہا اس کی کمزوری کا تم کیوں فکر کرتے ہو؟
جس کے نام پہ تم نے لگایا ہے وہ خود طاقتور بنا دے گا۔ اگر یتیم مکہ کو اس نے زمین کی پستیوں سے اٹھایا عرش کی بلندیوں سے ہمکنار کیا تو اپنی توحید کی آواز کو اس کائنات کے چپہ چپہ پر وہ نہیں پھیلائے گا؟