کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 42
نظر آجاتی تھی۔ اس کی سچائی پاکیزگی طہارت کو دیکھ کر ہمیں آسمان کے فرشتوں کا تقدس یاد آجاتا تھا۔ یہ ساری چیزیں بجا ہیں لیکن کبھی ہم نے یہ بھی ذکر کیا کہ اس فرمان کو یاد کر کے جس فرمان کی رو سے رات کو سوئے ہوئے آمنہ کے بیٹے کو پوری کائنات کی ماؤں کے لئے اپنے بیٹوں سے بھی گرانقدر بنا دیا گیا وہ فرمان کیا تھا ؟ ہم نے کبھی اس کا تذکرہ نہیں کیا۔ کیوں تذکرہ کریں ؟ اس لئے تذکرہ نہیں کرتے کہ اس تذکرے سے ہمیں اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بتوں کو ڈھانا پڑتا ہے۔ اپنے ہاتھوں سے بنائی ہوئی قبروں کو مسمار کرنا پڑتا ہے۔ اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے قبوں کو ڈھانا پڑتا ہے۔ اپنے ہاتھ سے تراشے ہوئے پتھروں کو جن پر کبھی پھول چڑھاتے کبھی عطر گلاب بہاتے کبھی ریشم و کمخواب کی چادریں چڑھاتے ہیں نوچنا پڑتا ہے۔ کبھی اپنے دل کے تراشے ہوئے دل کے صنم کدوں میں آباد پتھروں کے بتوں کو توڑنا پڑتا ہے۔ ہواؤ ہوس کے نام پر تراشے ہوئے خداؤں کو لات و منات کو منہ کے بل گرانا پڑتا ہے۔ منات و عزی و ثالث کی خدائی کا انکار کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سارے ان اوصاف کا ذکر کرتے ہیں جو ابن عبد اللہ کے اوصاف تھے لیکن اس فرمان کا تذکرہ نہیں کرتے جس فرمان نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو فرش کی پستیوں سے اٹھا کر عرش کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔ کل تلک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام صرف مکہ کی بستیوں میں گھومتا تھا کوئی مکہ سے باہر ابن عبد اللہ کو نہ جانتا تھا۔ یہ فرمان آیا اس فرمان کے صادر ہونے کے بعد عرش والے نے اعلان کیا۔ ابو جہل عتبہ شیبہ ولید ابو لہب سن لو یہ کہنے والو لَوْ لَا نُزِّلُ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰی رَجُلٍٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ۔(سورۃ زخرف:۳۱) قرآن اترنا تھا تو مکے کے کسی چوہدری کے اوپر کیوں نہیں اترا ؟ تمہاری نظر صرف مکہ کی چودھراہٹ پر ہے اور میں نے اس یتیم مکہ کو آج کے فرمان کے ذریعے مکہ کی چار دیواریوں سے نکال کر آفاق و انفس کی وسعتوں تک پھیلا دیا ہے۔ تم مکہ کی چودھراہٹ کی بات کرتے ہو۔ سن لو ! عرب و عجم کی ساری سلطنتیں جب تک اس یتیم کی چودھراہٹ کا اقرار نہ کریں گی میری بارگاہ میں داخل نہیں ہو سکتی ہیں۔ تمہاری نگاہ مکہ کی چوکھٹ کے پار نہیں گزرتی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام