کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 41
حسن کی ساری خوبیوں سارے کمالات سارے فضائل سارے مناقب سارے محامد باحیا تھے صاحب صدق تھے صاحب جود تھے صاحب سخا تھے صاحب کرم تھے صاحب نظر تھے صاحب وفا تھے۔ ان سب کے ہوتے ہوئے اور ان ساری چیزوں کے رکھتے ہوئے بھی تھے محمد ابن عبد اللہ ہی۔ وہ کون سی چیز تھی جس نے ایک رات کے گزرنے میں محمد ابن عبد اللہ کو محمد رسول اللہ بنا دیا تھا؟
وہ بات آج کسی کو یاد نہیں ہے اور اگر کسی کو یاد ہے تو اسے وہ بھلانے پر تلا بیٹھا ہے۔ چاہتا ہے ان سارے اوصاف کا تو تذکرہ ہو جو محمد ابن عبد اللہ کی حیثیت سے حضور رکھتے تھے۔ لیکن اس فرمان کا ذکر نہ آنے پائے جس فرمان نے رات کو سونے والے ابن عبد اللہ کو رسول اللہ بنا دیا تھا۔ یہ سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔ اس لئے کہ رات کے اس فرق نے دنیا کے اندر ایک انقلاب کی نیو رکھدی تھی اور ہم سمجھتے ہیں کہ اگر اس رات کے تذکرے کو ہم اپنی زندگی کا جزو بنا لیں تو ہمیں بھی اپنی زندگیوں میں انقلاب پیدا کرنا پڑے گا۔ ہم نے اس لئے اس فرمان کو جس فرمان کے ذریعے آمنہ کا لال خدیجہ کا تاجدار ساری کائنات کی ماؤں کی آنکھ کی ٹھنڈک اور روئے زمین کے انسانوں کا تاجدار بن گیا تھا۔ ہم نے اس فرمان کو چھپا کے رکھا لوگوں سے اس کو مخفی کر کے رکھا کہ لوگوں کو یہ پتہ نہ چل جائے۔
اور یارو! کون نہیں جانتا کہ انسان عام ہوتے ہیں۔ حکمران کا فرمان صادر ہوتا ہے۔ میں نے فلاں شخص کو اس فرمان کے ذریعے مارشل لاء کے اس آرڈیننس کے ذریعے حکومت کے اس قانون کے ذریعے اختیار کی اس شق کے ذریعیفلاں منصب پہ سرفراز کیا ہے۔ وہ فرمان اس انسان کی زندگی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور پھر آنے والی نسلیں جب بھی اس جلیل القدر انسان کا تذکرہ کرتی ہیں تو اس فرمان کے ساتھ کرتی ہیں کہ فلاں دن حاکم وقت کا سلطان کا سلطان زمان کا حاکم دوران کا حکمران کا یہ فرمان صادر ہوا تھا جس کی رو سے یہ آدمی فلاں اونچے منصب پہ سرفراز ہوا۔ لوگ اس طرح تذکرہ کرتے ہیں اور ہم نے اپنے آقا کا اس طرح تذکرہ نہیں کیا۔
ہم نے کہا اس کی زلفوں کو دیکھ کر شب دیجور کی سیاہی یاد آجاتی تھی۔ اس کے چہرے کو دیکھ کر بدر الدجاء یاد آجاتا تھا۔ اس کی چال اور اس کی نگاہوں کو جھکا ہوا دیکھ کر ہمیں حیاء مجسم