کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 401
سے سوئے ہوئے ہوتے ہیں رب کی یاد آتی ہے آنکھ کھل جاتی ہے۔ وہ بھی ہوتے ہیں۔ بادشاہ نے کہا امام تکلیف تھی تو آنکھ کھلی۔ مجھے اور تکلیف نہ دو۔ گرمی نے نڈھال کر رکھا ہے۔ کیا امام تھا کیا عالم تھا کیا فتوی دیا؟ اس وقت کے مشیر بھی یہ تھے۔ کہا بادشاہ بتلا اگر یہ پانی کا پیالہ تجھ کو نہ دیا جائے تو ایک پانی کے پیالے کے لئے کتنی دولت صرف کرنے کو تیار ہو؟ اس نے کہا امام اگر یہ پانی کے پیالے کی قیمت مقرر کی جائے اور مجھ کو کہا جائے تو اس کی قیمت دے تب پانی دیں گے خدا کی قسم ہے میں اپنی آدھی سلطنت دے دوں اور پانی کا ایک پیالہ لے لوں۔ ایک رات پانی کی پیاس برداشت نہیں ہوتی۔ آدمی بھوک تو چار چھ دن برداشت کر لیتا ہے پیاس لمحے بھر کی برداشت نہیں ہوتی۔ نہ پانی کے بغیر آدمی کا گذر ہے نہ ہوا کے بغیر اور یہ دونوں رب کی وہ نعمتیں ہیں جن پر کسی حاکم کا کنٹرول نہیں ہے۔ اگر کسی حاکم کا پانی اور ہوا پر بھی کنٹرول ہوتا تو ہمارا حشر وہی ہوتا جو آج گوشت کھانے والوں کا ہو رہا ہے۔ بالکل سچی بات ہے۔ اس پر کسی کا کنٹرول نہیں۔ تو آواز دیں گے اللہ پانی اللہ پانی۔ ہائے ہزارہا سال گزر جائیں گے۔ پھر کیا کہیں گے؟ وَنَادَوْا یٰمٰلِکُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبَّکَ قَالَ اِنَّکُمْ مّٰکِثُوْنَ(سورۃ الزخزف:۷۷) اور اس سے پہلے قرآن نے نقشہ کھینچا۔ جنت والوں کو دیکھیں گے۔ ادھر جہنمی پانی کی بوند سے تڑپ رہے ہیں۔ ہزار سال گزر گیا۔ ادھر جنتی آب خورے لئے ہوئے ٹھنڈے پانی کوثر کے پانی سلسبیل کے پانی پی رہے ہوں گے۔ کہیں گے قرآن کے الفاظ ہیں اَفِیْضُوْا عَلَیْنَا مِنَ الْمَآئِ (سورۃ الاعراف:۵۰) اے لوگو! تمہیں رب نے جو پانی دیا ہم کو ایک قطرہ ہی دے دو۔ کہیں گے رب نے ہم کو پلایا تمہارے پینے کے لئے ایک قطرہ بھی عطا نہیں کیا۔ ہم تو رب کے ماننے والے وہی کام کریں گے جو رب کہے گا۔ رب کی مرضی کے بغیر کوئی کام نہیں کر سکتے۔ جب دیکھیں گے کہ یہ بھائی یہ رشتہ دار یہ قریبی یہ پڑوسی پانی دینے کے لئے تیار نہیں تو کہیں گے يَا مَالِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ