کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 400
نہ راعی کے نہ پرجا کے گزرتے ہیں نہ راجہ کے۔ یہ حالت ہے۔ چند گھنٹے نہیں گزرتے کوئی برف والا پیتا ہے کوئی مٹکے کا پیتا ہے کوئی ٹھنڈا پیتا ہے۔ جتنی جتنی کسی کو میسر ہوتی ہے اتنا خرچ کرتا ہے۔ جس کو کچھ نہیں ہوتا وہ کنویں کا ٹھنڈا تازہ پانی نکال کے پی لیتا ہے۔ چند گھنٹے پیاس میں گزارنا برداشت نہیں۔ ایک مشہور واقعہ ہے۔ ایک بزرگ ایک بادشاہ کے پاس رات کو سوئے ہوئے تھے۔ ہارون الرشید کا واقعہ ہے۔ اس وقت کے بادشاہ بھی نیک تھے۔ اپنے پاس بزرگوں کو نیکوں کو عالموں کو ٹھہراتے تھے تاکہ ان سے کوئی نیکی کی بات معلوم ہو اور اس وقت کے عالم بھی کوئی ضمیر فروش نہیں تھے کہ مسئلہ وہ بیان کریں جو بادشاہ چاہے بلکہ مسئلہ وہ بیان کرتے تھے جو رب چاہے۔ رب کی مرضی کا خیال کرتے بادشاہ کی مرضی کا خیال نہیں کیا کرتے تھے۔ آج ہمارے حکمرانوں کا جو بیڑہ غرق ہوا ہے اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ان کو ضمیر فروش مولوی مل گئے ہیں جو ان کو مسئلے وہی بتلاتے ہیں جو ان کا دل چاہتا ہے۔ اس وقت کے علماء بھی وہ تھے جو مسئلے وہ بیان کرتے تھے جو رب چاہے۔ بادشاہ ناراض ہو جائے تو پرواہ نہ کرتے تھے سمجھتے تھے کہ بادشاہوں کا بادشاہ ناراض نہ ہو جائے۔ ہارون الرشید کے پاس ایک عالم سوئے ہوئے تھے۔ رات کا وقت تھا گرمی کے دن تھے۔ بادشاہ کو پیاس لگی۔ اٹھا خادم کو آواز دی۔ امام وقت بیدار ہو گئے۔ کہا رک جاؤ۔ خادم کو روک دیا۔ کہا بادشاہ کیا بات ہے؟ کہا پیاس لگی ہے۔ جلدی سے اٹھے پیالہ پانی کا بھر کے لے آئے۔ بادشاہ کے سامنے کیا۔ ہارون الرشید نے ہاتھ بڑھایا امام وقت نے پیالہ پیچھے ہٹا لیا۔ پھر ہاتھ بڑھایا پھر پیالہ پیچھے کر لیا پھر ہاتھ بڑھایا پھر پیالہ پیچھے کر لیا۔ بادشاہ نے کہا امام مجھے پیاس نے نڈھال کر رکھا ہے۔ آدھی رات کو نیند اپنی مرضی سے نہیں آتی آنکھ اپنی مرضی سے نہیں کھلتی۔ اسی وقت کھلتی ہے جب تکلیف ہو۔ تمہاری آنکھ بھی اسی وقت کھلتی ہے جب تکلیف ہو۔ نیکوں کی بغیر تکلیف کے رب کے ڈر سے بھی کھل جاتی ہے۔ تَتَجَا فٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا (سورۃ السجدہ:۱۶) فرمایا بدبخت ہوتے ہیں تکلیف ہوتی ہے آنکھ کھلتی ہے۔ نیک بخت ہوتے ہیں آرام