کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 398
مایوسی کے میرے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ اس لئے اگر میں چاہوں کہ جب لوگوں کی فصلوں کی کٹائی ہو تو میرا کھیت بھی لہلہا رہا ہو میرا کھیت بھی سرسبز و شاداب ہو میرے کھیت پہ بھی بہار ہو میری فصل بھی پکی ہوئی ہو میرے گھر میں بھی دانے آجائیں میرے بچے بھی آرام کی زندگی بسر کریں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ میں نہ رات کے آرام کو دیکھوں نہ دن کے چین کو دیکھوں۔ یہ نہ دیکھوں کہ رات سرد ہے کہ نہیں سرد ہے یہ نہ دیکھوں کہ دن گرم ہے کہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ دیکھوں کہ اگر اب محنت نہیں کرتا تو موسم بہار میں کٹائی کس چیز کی کروں گا؟ بالکل اس شخص کی طرح اللہ نے ایک بڑی زندگی کے لئے انسان کو ایک وقت مہیا کیا ہے کہ دیکھ تیرے لئے ایک بڑی لمبی زندگی ہم نے رکھی ہوئی ہے۔ وہ زندگی جس نے سو سال کے بعد دو سو سال کے بعد تین سو سال کے بعد چار سو سال چار ہزار سال چار لاکھ سال کے بعد بھی ختم نہیں ہونا بلکہ ہمیشہ ہمیشہ اس زندگی نے باقی رہنا ہے۔ پرانے لوگ کہا کرتے تھے کہ اس وقت زندگی ایسی زندگی ہو گی جس کی کوئی انتہا نہ ہو گی اور ایک روایت میں آیا ہے کہ جب ان لوگوں کا فیصلہ ہو گا جن لوگوں نے اس زندگی میں اپنی اس زندگی کے لئے کچھ سامان مہیا کیا اور ان لوگوں کا جنہوں نے کچھ بھی مہیا نہیں کیا تو اس زندگی والے جہنم میں اس زندگی والے جنت میں ڈالے جائیں گے تو جہنمیوں کو ایک آس ہو گی۔ جسم جلے گا چمڑہ جلے گا۔ وہ کہیں گے کوئی بات نہیں اب جسم جل جائے گا چمڑہ جل جائے گا جان چھوٹ جائے گی۔ قرآن میں رب نے کہا کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّلْنٰھُمْ جُلُوْدًا غَیْرَھَا لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَ(سورۃ النساء:۵۶) جب ایک چمڑہ جلے گا ہم نیا چمڑہ چڑھا دیں گے تاکہ ان کے عذاب میں کوئی کمی اور تخفیف واقع نہ ہو۔ ان کو اتنی ہی تکلیف ہو جتنی پہلی دفعہ جلتے ہوئے ہوئی تھی۔ کہا پھر ان کو آس ملے گی چلو اب نیا چمڑہ مل گیا۔ پھر جلتا ہے پھر نیا مل گیا۔ ایک دن آئے گا کہ زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ دکھوں سے چھوٹ جائیں گے۔ اللہ کہے گا جاؤ موت کو لاؤ۔ موت کو ایک مینڈھے کی صورت میں ایک بچھڑے کی صورت میں ایک دنبے کی صورت میں ان کے سامنے لایا جائے گا۔ اللہ کہے گا اس موت کو ان کے سامنے ذبح کردو تاکہ ان کو پتہ چل جائے کہ دکھوں سے نجات کے لئے موت بھی نہیں آنے والی ہے۔ اب تو دنیا میں آدمی گھبرا جاتا