کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 396
فکر آخرت اور اس کے تقاضے خطبہ مسنونہ کے بعد : اَعُوْذُ بِاللّٰہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیْمِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ. بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ. یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰ لِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا. (سورۃ النساء:۵۹) حضرات ! آپ نے مجھ سے پہلے میرے دوستوں کے خیالات سنے ہیں۔ میں اس جگہ آکر بڑی خوشی اور مسرت محسوس کر رہا ہوں کہ اللہ کا شکر ہے کہ اب اس روشنی اور تعلیم کے دور میں پاکستان کی کوئی بستی ایسی موجود نہیں رہی جس میں اللہ کی توحید کا بوٹا (پودا) نہ لگ گیا ہو۔ یہ میری ایماندارانہ رائے ہے کہ نہ صرف ہماری خوش قسمتی ہے بلکہ جس جس بستی میں اللہ کی توحید کا اور سرور کائنات علیہ الصلو والسلام کی سنت کا چمن لگایا گیا یا لگ گیا ہے اس ساری بستی والوں کی یہ بڑی خوش نصیبی کی بات ہے۔ دنیا میں آدمی اس لئے نہیں آیا کہ وہ کھائے پئے نشوونما پائے جوان ہو بوڑھا ہو اور مر جائے بلکہ انسان دنیا میں اس لئے آیا ہے تاکہ اس کائنات میں رہ کر وہ ایک ایسی زندگی کے لئے سامان اور بندوبست مہیا کرے جو زندگی کبھی ختم ہونے والی نہیں اور جو زندگی یا تو بڑی عیش کی عشرت کی ناز کی نعمت کی آرام کی زندگی ہو گی یا بڑی تکلیف کی دکھ کی مصیبت کی رنج کی غم کی الم کی ہوگی۔ امام کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زندگی کے بارے میں یوں بیان کیا