کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 392
اور آج کے دور میں؟
آج کے دور میں تو دین کی راہ اور کٹھن ہو گئی ہے۔ ایک طرف حکمران مخالف دوسری طرف نئی تہذیب کے فرزند مخالف تیسری طرف وہ لوگ مخالف کہ دین جن کے مفادات پر چوٹ مارتا ہے۔ آج کے اخبار میں آپ نے پڑھا ہے کہ مسلمانوں کے عظیم مطالبے کی بنیاد پہ ختم نبوت کا مسئلہ حل ہوا ہے۔ تھوڑا سا حل ہوا ہے۔ دونوں کو تکلیف ہے حکمرانوں کو بھی تکلیف ہے جدید تہذیب کے فرزندوں کو بھی تکلیف ہے۔ دونوں کو تکلیف ہے۔ بعض جاہل مولویوں نے فتوے دئیے حکومت کا شکریہ۔ حکمرانوں نے بڑی مہربانی کی ہے۔ حکمران اگر مہربانی کرنے والے ہوتے تو سات سال انتظار کیا کرتے رہے ہیں؟
حکمرانوں نے مہربانی نہیں کی۔ قوم نے نبی کی ختم نبوت کے مسئلے پر قربانی دینے کا عزم کر کے حکمرانوں کو ماننے پر مجبور کیا۔ تکلیف حکمرانوں کو بھی ہے۔ کیسے ؟ وہ بھی بتلاتا ہوں۔
لاہور کے اندر ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا اور اخبارات میں اتنا غلیظ اشتہار چھپا ہے اتنا گندہ۔ خبیث نجس ذلیل ہر قسم کی گالی دی گئی اور بے حیاؤں کی بے حیائی کا عالم یہ ہے روٹی بھی ان کی دی ہوئی کھاتے ہیں گالی بھی ان کو دیتے ہیں۔ حالت یہ ہے پہلے یہ جلوس نکالتے تھے کہ وہاں سے ہمارے بندے کیوں نکالے گئے ہیں۔ بندے تمہارے وہاں رہتے ہیں گالی ہم کو دیتے ہو نجدی کہہ کے۔ پھر لاہور میں جلوس نکالے گئے اشتہار لگائے گئے۔ حکومت دم سادھے خاموش بیٹھی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے حکومت بہری ہو گئی ہے اندھی ہو گئی ہے نظر نہیں آتا۔ غلیظ اشتہار چھپ رہے ہیں اور گوجرانوالہ کے لوگو یاد رکھنا ان اشتہاروں کو وہ چھاپ رہے ہیں جو حکومت کے ٹاؤٹ ہیں۔ میں برملا کہتا ہوں سی آئی ڈی والے لکھیں مجھ پہ مقدمہ چلائیں۔ اس سازش میں بھیرہ کا ایک نام نہاد پیر جس کو اس دور کی
ہائے ہائے کیا کہوں ؟ الفاظ زیب نہیں دیتے ہیں۔ اس زمانے نے کیا کیا کروٹیں بدلیں اور کن کن لوگوں کو شاہ نشین بنایا ہے۔ ایک جاہل پیر جس کو الف ب نہیں آتی ہے اس کو سپریم کورٹ کا شریعت کورٹ کا جج بنایا گیا ہے۔ اس سپریم کورٹ کے شریعت کورٹ کے جج نے اپنی ججی کی بھی شرم نہ رکھتے ہوئے اتنا غلیظ اتنا گندہ اپنے پرچے کے اندر اداریہ لکھا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں ایسا گندہ اداریہ کبھی نہیں لکھا گیا۔