کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 390
ہے کہ مار کھا کھا کے اتنے دبلے اتنے پتلے ہو گئے کہ ہوا چلے تو اس میں اڑ جائیں۔ اتنے کمزور تھے۔ کہا مار پڑی کوڑے پڑے کبھی چہرے کا رنگ نہیں بدلا۔ جب بادشاہ کی ماں نے کہا میرے بیٹے نے تجھ کو اپنے محل میں بلایا ہے امام کا چہرہ بدل گیا۔ خاتون نے پوچھا امام جواب نہیں دیتے؟ آنکھوں میں آنسو آگئے فرمایا میں اس گھر میں کیسے جا سکتا ہوں جس گھر میں رب کی نافرمانی کی جاتی رہی ہو؟ اس گھر میں کیسے جاؤں؟ ماں تڑپ اٹھی۔ کہنے لگی میں نے اپنے بیٹے کو کہا تھا معاف کر دو۔ کہا معافی اور بات ہے رب کی نافرمانی اور بات ہے۔ دعا مانگتا ہوں لیکن اس گھر میں نہیں جاتا۔ ماں مایوس ہو کے پلٹ گئی۔ متوکل تڑپ اٹھا کہنے لگا ماں ایک دفعہ بلا لو۔ میرے گھر نہیں آتے اپنے گھر ہی بلا لو۔ امام ابن کثیر نے لکھا ماں مجبور ہو کے پھر گئی۔ کہنے لگی میرے بیٹے کے گھر نہیں آتے بادشاہ کے محل میں نہیں جاتے تو میرے گھر تو آجاؤ۔ بہت مجبور کیا منتیں کیں خوشامدیں کیں۔ گھر والوں نے بھی آمادگی کا اظہار کیا امام مان لو یہ بڑھیا ہے عقیدت سے بلاتی ہے۔ امام چل پڑے۔ عورت نے اپنے بیٹے کو خبر دی۔ قسما قسم کے کھانے لے کے اپنی والدہ کے گھر میں امام کی بارگاہ میں حاضری دینے کے لئے آیا۔ کھانے کا وقت ہوا۔ امام کے سامنے کھانا رکھا۔ اللہ اکبر احمد کا بیٹا عبداللہ ساتھ ہے۔ ارشاد فرمایا جب کھانا رکھا گیا میرے باپ کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اپنے چہرے کو اٹھایا خاتون کو مخاطب ہو کے ارشاد فرمایا اماں کھانے کو اٹھا لو۔ احمد ابن حنبل نے تیرے گھر میں قدم رکھنے سے پہلے روزے کی نیت کی ہوئی ہے۔ اس گھر میں کھانا بھی گوارہ نہیں۔ یہ لوگ تھے اور پھر امام ابن کثیر نے لکھا ہے اور میں اس پہ اضافہ کرتا ہوں کہ آج امام احمد کو بارہ سو سال گزر گئے۔ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں آج تک کسی شخص کا اتنا بڑا جنازہ نہیں ہوا جتنا احمد ابن حنبل کا ہوا۔ آج کا زمانہ جو ٹیلی ویژن کا ریڈیو کا ٹیلی فون کا اخبارات کا وائر لیس کا زمانہ ہے پل بھر میں ایک جگہ کی خبر دوسری جگہ اور پل بھر میں ایک جگہ کے لوگ دوسری جگہ منتقل ہو جاتے ہیں۔ آج تک کسی شہنشاہ کا کسی بادشاہ کا کسی بڑے سے بڑے آدمی کا اتنا بڑا جنازہ آسمان سے نہیں دیکھا جتنا