کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 389
ہوں۔ چاہتا ہوں ایک دفعہ میرے گھر میں آئے میرے لئے دعا کرے میرے گھر میں برکت نازل ہو جائے۔ کہا پھر ملازم کو نہ بھیجو بھیجنا ہے تو اپنی ماں کو بھیجو۔ احمد ابن حنبل کی بارگاہ میں متوکل نے اپنی ماں کو بھیجا۔ ماں اس فقیر کے دروازے پہ آئی۔ وہ فقیر جس کو نہ تین بادشاہوں کی بادشاہت مرعوب کر سکی نہ بادشاہ کی ماں کی ترغیب مرعوب کر سکی۔ دو ہی چیزیں ہوتی ہیں جس سے آدمی بہک جاتا ہے۔ یا ڈر سے یا لالچ سے اور آج کل کے مولوی بغیر دونوں چیزوں کے بک جاتے ہیں۔ ڈر کی بھی ضرورت نہیں لالچ کی بھی ضرورت نہیں یہ اتنے بے نفس ہیں کہ بغیر قیمت کے ہی بکنے کے لئے تیار ہیں۔ گاجروں مولیوں سے زیادہ سستے ہو گئے ہیں۔ کہتے ہیں تم ہم پہ نظر کرم ڈال دو ہم تمہارے باپ دادا کے غلام ہیں۔ پھر مولویت کا نام چھوڑ دو۔ مولویت غلامی کا نام نہیں کائنات کی آقائی کا نام ہے۔ بات سن لو۔ لالچ پھسلا دیتا ہے یا ڈر بہکا دیتا ہے۔ تین بادشاہوں نے ڈرا کے دیکھا پاؤں میں لغزش نہ آئی۔ بادشاہ کی ماں خود دروازے پہ دستک دیتی ہوئی آئی تب بھی پائے ثبات میں لغزش نہ آئی۔ بیٹا عبد اللہ اندر جا کے خبر دیتا ہے بابا بادشاہ کی ماں آئی ہے اور بادشاہ کسی چھوٹے سے ملک کانہیں۔ ساری اسلامی مملکت کا ایک بادشاہ۔ عرب سے لے کر عجم تک شام سے لے کر روم تک یونان سے لے کر پاکستان تک ایک بادشاہ اسلامی دنیا کا حکمران تھا۔ کہا بادشاہ کی ماں آئی ہے۔ احمد ابن حنبل نے اپنی نگاہ اٹھائی فرمایا جاؤ اس سے پوچھو کیا کہتی ہے؟ کہا بابا آپ سے ملنا چاہتی ہے۔ کہا بلا لو۔ بادشاہ کی ماں آئی اور ادب سے سلام کیا۔ پردے کے پیچھے بیٹھی۔ کہنے لگی امام میں اپنے بچے کی طرف سے معافی مانگنے آئی ہوں۔ ہاتھ دعا کے لئے اٹھائے کہا میں معافی دینے والا کون ہوں اللہ تیرے بیٹے کو معاف کرے۔ اب کیا کہتی ہے؟ کہنے لگی امام ایک دن میرے بچے کے گھر تو آجاؤ۔ ہائے ہائے۔ امام کا بیٹا عبد اللہ کہتا ہے میرے باپ کی مار کھاتے کھاتے کمر جھک گئی لیکن میں نے اپنے باپ کے چہرے پہ کبھی زردی نہیں دیکھی۔ کوڑے پڑ رہے ہیں چہرہ تنا ہوا ہے بوڑھا ہو گیا ہے اور سیرت نگاروں نے لکھا