کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 388
کہ پیر نہیں دے سکتا فقیر نہیں دے سکتا۔ یہ عقیدہ تو ہے لیکن یہ بھی عقیدہ ہے کہ مسجد کا متولی دے سکتا ہے۔ میرے فارغ ہونے والے دوستو اور بھائیو سن لو ! جس نے لوگوں کی پیشانیوں کو دیکھا رب کے قرآن کو نہ دیکھا اس کی دنیا بھی برباد اس کی آخرت بھی برباد۔ دنیا تو برباد کر کے دین کی طرف آیا ہے دنیا چھوڑ کے دین کی طرف آیا ہے۔ دنیا پہلے چھوڑ چکا لوگوں کی رضا کے لئے دین اب چھوڑ رہا ہے اور ایسا بندہ پھر کبھی حق کی بات کہنے کی جرات نہیں کر سکتا۔ جو چھوٹے خداؤں کے سامنے نہیں بولتا اس نے بڑے خداؤں کے سامنے کیا بولنا ہے؟ ابھی پچھلے دنوں میں سعودی عرب میں تھا۔ ایک یونیورسٹی کے طالب علموں سے میرا خطاب تھا۔ پہلے گفتگو کرتے ہوئے سپاس نامے میں مجھ سے کہنے لگے جناب ہم احمد ابن حنبل کے ماننے والے ہم ابن تیمیہ کے ماننے والے ہیں۔ میں نے کہا جھوٹ کہتے ہو۔ احمد بن حنبل کے ماننے والے تم نہیں ہو۔ احمد ابن حنبل کا ماننے والا وہ ہے جو نہ چھوٹے خداؤں کو مانتا ہے نہ بڑے خداؤں کو مانتا ہے۔ وہ صرف وہ ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا کو مانتاہے۔ احمد ابن حنبل آ دمی جب بھی ان کی بات کرے جب بھی ان کا واقعہ بیان کرے جب بھی ان کے حالات پڑھے آدمی کے اندر ایک نئی زندگی پیدا ہوتی ہے۔ تین بادشاہوں سے مار کھائی تین حکمرانوں سے مار کھائی۔ ہمارے ہاں کسی نے بھٹو سے دو کوڑے کھا لئے ہیں اس کا پیر زمین پہ نہیں پڑتا۔ تین بادشاہوں سے مسلسل مار کھائی۔ تیسرا بادشاہ گذرامتوکل کا دور آیا امام کو رہا کیا معافی مانگی عزت و تکریم سے جیل سے نکالا۔ اب ذرا حق کی بات سنو۔ گھر میں عزت و تکریم سے بھیجا احسان کیا۔ تین بادشاہ مار رہے تھے۔ اس نے نہ صرف رہا کیا بلکہ عزت و تکریم سے رہا کیا معافی مانگی۔ امام اپنے گھر چلے گئے۔ متوکل کے دل میں خیال تھا کہ امام شکریہ ادا کرنے میرے پاس آئیں گے۔ امام نے پلٹ کے دیکھنا گوارہ نہیں کیا۔ آخر انتظار کر کے ایک دن پیغام بھیجنے لگا کہ میرے دربار میں آؤ۔ ماں نیک عورت تھی۔ اس نے کہا متوکل سنو تو دنیا کا بادشاہ ہے لیکن احمد ابن حنبل آخرت کا بادشاہ ہے۔ اس کو ہرکارے کے ہاتھ پیغام نہ بھیجو۔ کہا ماں میں تو اس کو راضی کرنا چاہتا