کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 386
سکتے۔ پاکستان کے دو ہی دشمن ہیں۔ ایک طرف شمال کی سرحدوں پر روس دشمن ہے جنوب کی سرحدوں پر انڈیا دشمن ہے۔ ہمارے حکمران کہتے ہیں دونوں سے نہیں لڑ سکتے۔ دونوں سے نہیں لڑ سکتے تو ٹیکس کیوں لیتے ہو؟
ہم سے لڑنے کے لئے؟
پھر یہ تیاری کس کے خلاف ہے؟ اسلحہ کس کے خلاف ہے؟
انڈیا سے تم نہیں لڑ سکتے روس سے تم نہیں لڑ سکتے تو پھر اسلحہ ہمارے ساتھ لڑنے کے لئے لے رہے ہو ؟ آج ٹیکس پہ ٹیکس لگے ہوئے ہیں۔ کوئی آدمی بولنے کی جرات نہیں کرتا۔ حق کہنے والے کہاں گئے ہیں؟
حق کہنے والے اس لئے ناپید ہو گئے ہیں کہ آج بعض لوگوں نے میں سب کی بات نہیں کرتا علم دین کو بھی دنیا کے حصول کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ یاد رکھو علم دین دنیا کے حصول کا ذریعہ نہیں بلکہ رب کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہے اور وہ شخص جو علم دین اس لئے پڑھتا ہے کہ رب راضی ہو جائے کائنات کے رب کی قسم روئے زمین پر کوئی مخلوق اس سے افضل نہیں ہے۔ لیکن شرط یہ ہونی چاہئے کہ آدمی جب علم دین حاصل کرے تو پیش نظر صرف یہ بات رکھے کہ میں نے رب کی رضا چاہنی ہے۔ کائنات ناراض ہوتی ہے ہو جائے۔
آج کیا ہے؟
آج بیچارے غریب مولوی اپنی مسجد میں وہ مسئلہ بیان نہیں کر سکتے جس مسئلے کو حق سمجھتے ہیں اس لئے کہ مسجد کا متولی اس مسئلے کو بیان کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس مسئلے کی زد اور چوٹ مسجد کے متولی پہ پڑتی ہے۔ متولی سود کھاتا ہے سودی لین دین کرتا ہے سودی کاروبار کرتا ہے۔ مولوی ساری عمر سود کے مسئلے سے اس طرح بچ بچا کے گزر جاتا ہے جس طرح ہمارے صدر صاحب انتخاب سے گزر جاتے ہیں۔ نام ہی نہیں لیتے۔ ساری عمر سود کا مسئلہ بیان نہیں کرتے۔
مولوی سمجھتا ہے کہ وہ گھرانہ جس گھرانے میں صبح کا آغاز گانے بجانے سے ہوتا ہے اور دن کا اختتام ٹی وی کی فلم پر ہوتا ہے اس گھر میں رب کی رحمت کا فرشتہ کبھی داخل نہیں ہوتا۔ مولوی یہ سمجھتا ہے لیکن مسئلہ بیان نہیں کرتا۔ اس لئے کہ مسجد کے متولی حاجی صاحب