کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 385
ملائے تب تک عزت ہے۔ جب ان کی ہاں میں ہاں نہ ملاؤ تو عزت چھن جانے کا خطرہ۔ کہنے لگا مولوی صاحب مجھ کو جھوٹا کہتے ہو؟ فرمایا ہاں تجھ کو جھوٹا کہتا ہوں۔ اور زیادہ تکلیف ہوئی۔ کہنے لگا اپنے خزانوں کو میں جانتا ہوں یا تو جانتا ہے؟ فرمایا جاننے کے لئے ضرورت نہیں عز الدین کی نگاہیں دیکھ رہی ہیں تیرے پاس مال موجود ہے۔ عز الدین کی نگاہیں جھوٹ نہیں بولتیں ۔ کہا کہاں دیکھ رہی ہے؟ کہا یہ نوکروں کو جو سونے اور چاندی کا چڑھا ہوا لباس پہنایا ہے قیامت کے دن جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت تجھ سے سوال کرے گی تو بتلاؤ جواب کیا دو گئے؟ پہلے جتنے نوکر ہیں ان کے زر تار لباس اترواؤ۔ ان کو بازار میں فروخت کرو۔ اگر ان کی فروختگی کے بعد پھر بھی مجاہدوں کی تیاری کے لئے پیسے کی ضرورت ہو گی تو عز الدین پیسے کے حصول کے لئے فتوی دے گا۔ جب تلک یہ لباس موجود ہیں تمہیں لوگوں سے ٹیکس حاصل کرنے کے اجازت نہیں ہے۔ بادشاہ بادشاہ تھا۔ اس نے کہا امور مملکت خویش خسرواں دانند بادشاہت کے امور مولویوں کو کیا پتہ ہیں۔ یہ حکمران ہی جانتے ہیں آپ نے فرمایا جس مملکت کے حالات کو نبی کی مسند کے امین نہیں جانتے عز الدین اس مملکت میں رہنا گوارہ نہیں کرتا۔ بادشاہ بھی خوش ہوا کہنے لگا نکل جاؤ۔ دمشق سے نکلے۔ جب دمشق سے نکلے تو پورا دمشق بھی امام کے پیچھے نکل پڑا۔ بادشاہ نے دیکھا حالات بگڑ گئے ہیں۔ پیغام بھیجا مجھے معاف کر دو واپس پلٹ آؤ۔ آسمان کی طرف دیکھ کے کہا اللہ میں اس شہر میں کبھی نہیں جانا چاہتا جس میں تیری رعایا پہ ایسا بادشاہ ہو جو تیری رعایا پہ ظلم کرتا ہو۔ میں اس شہر میں نہیں رہنا چاہتا۔ ابھی نگاہ نیچے نہیں گرائی تھی کہ اللہ نے عزرائیل کو بھیجا کہ جاؤ ایسے ظالم و سفاک بادشاہ کی مجھے ضرورت نہیں ہے جس کے لئے عز الدین عبد السلام بد دعا کرتا ہے۔ تو بات جو کہنے کی تھی وہ یہ تھی کہ لوگوں نے علم دین حاصل کیا پھر اس کا حق ادا کیا پھر رب نے ان کی زبان میں تاثیر بھی پیدا کی۔ آج کون ہے جو حکمرانوں کو ٹوکے؟ آج حکمران یہ بھی کہتے ہیں ہم اندرا گاندھی سے نہیں لڑ سکتے روس سے بھی نہیں لڑ