کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 384
اس نے کہا حضرت نمازیوں سے پوچھ لیجئے۔ نمازیوں سے پوچھا نمازیوں نے گواہی دی۔ جمعہ پڑھایا۔ گھر نہیں گئے سیدھا بادشاہ کے گھر پہنچے۔ دروازے پہ دستک دی اس کے درباری باہر نکلے کہا جاؤ بادشاہ کو کہو کہ عز الدین آیا ہے۔ بادشاہ کو پتہ چلا۔ ننگے پاؤں امام کے استقبال کے لئے آگے بڑھا۔ لوگ حیران و ششدر رہ گئے کہ اتنا بڑا بادشاہ اور ایک عالم کے استقبال کے لئے بغیر جوتا پہنے ہوئے دروازے پہ آیا ہے۔ عزت و تکریم سے اندر لے گیا۔ بیٹھنے کو کہا۔ امام صاحب نے ارشاد فرمایا میں اس مسند پہ نہیں بیٹھ سکتا جو لوگوں پہ ظلم کر کے حاصل کی گئی ہو۔ بادشاہ پریشان ہو گیا۔ کہنے لگا امام صاحب کیا بات ہے؟ کہا مجھے پتہ چلا ہے تونے لوگوں پہ ٹیکس لگایا ہے۔ طالب علمو !ذرا بات سمجھو۔ بخاری کے نسخوں میں اضافہ کر دینا یہ علم دین کا حاصل کرنا نہیں ہے۔ کسی مدرسے کی سند لے کر اپنے آپ کو فارغ التحصیل کہلا لینا یہ علم دین کا حصول نہیں ہے۔ علم دین کے حاصل کرنے کا معنی یہ ہے کہ آدمی اس بات کا احساس کرے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مسند کا امین بننے والا ہے۔ اس پر لوگوں کی اصلاح کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ بادشاہ نے نظر اٹھا کے دیکھا۔ کہا امام صاحب کیا بات ہے؟ فرمایا مجھے پتہ چلا ہے تونے بے روزگاری کے زمانے میں لوگوں پہ نیا ٹیکس لگایا ہے۔ بادشاہ نے کہا آپ نے ٹھیک سنا ہے۔ کہا کیوں لگایا ہے؟ اب ذرا بادشاہ کی بات سنو۔ کہنے لگا کافروں سے جہاد کے لئے لشکروں کی تیاری کی خاطر لگایا ہے۔ کفر سے جہاد کے لئے لگایا ہے۔ امام صاحب نے کہا مجاہدوں کو تیار کرنے کے لئے خزانے میں کوئی پیسہ نہیں رہا ہے؟ اس نے کہا جناب خزانے میں کوئی پیسہ نہیں ہے۔ سامنے بادشاہ کے نوکر چاکر کھڑے تھے اور بادشاہوں کے نوکر زرتار لباس پہنے ہوئے سونے اور چاندی کا کپڑوں پہ کام کیا ہوا۔ آپ نے فرمایا تم جھوٹ کہتے ہو۔ بادشاہ کو کہہ رہے ہیں۔ بادشاہ تڑپ اٹھا۔ اس نے کہا مولوی صاحب آپ مجھے جھوٹا کہتے ہیں۔ امام سے مولوی پہ اتر آیا بادشاہوں کی یہی عادت ہوتی ہے۔ جب تک کوئی ان کی ہاں میں ہاں