کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 383
اس نے دین کا حق ادا کیا۔ یہ وہ شخص ہے جس کے بارے میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب یہ چلتا ہے تو اپنے پیروں کے اوپر نہیں چلتا فرشتوں کے پروں کے اوپر چلتا ہے۔ جس کے اندر یہ جذبہ ہے اور پھر اس کو اللہ نے جو آبرو عطا کی اس کو اللہ نے جو عزت بخشی اس کو اللہ نے جو وقار عطا کیا وہ کائنات میں کسی دوسرے کا حصہ نہیں بن سکتا۔ وہ لوگ جنہوں نے صحیح معنوں میں اپنے آپ کو دین کے لئے وقف کیا دین کے خدمت گزار بنے‘ سرور کائنات کی سنت کے علمبردار ٹھہرے‘اللہ کی توحید کے پرچارک بنے ہم نے ان لوگوں کو دیکھا ہے ان لوگوں کے حالات پڑھے ہیں۔ وہ دنیا کے ایک گوشے میں بیٹھے ہوئے ساری دنیا ان کی سرفرازی کے لئے دعائیں مانگتی ہے اور یہ بات دنیا کے کسی بڑے سے بڑے اقتدار والے کو حاصل نہیں۔ ہم نے ہر دور میں دیکھا۔ مالک ابن انس کے دور میں دیکھا احمد ابن حنبل کے دور میں دیکھا امام ابن حزم کے دور میں دیکھا امام ابن تیمیہ کے دور میں دیکھا امام عزالدین عبد السلام کے دور میں دیکھا امام شرف الدین نووی کے زمانے میں دیکھا امام ابن کثیر کے دور میں دیکھا امام ابن قیم جوزی کے دور میں دیکھا ہر دور میں کائنات ان کی عزت کے لئے ان کی سرخروئی کے لئے دعائیں مانگتی ہے۔ کسی حکمران کے لئے یہ نہیں کیا گیا۔ امام عزالدین عبد السلام کا واقعہ مورخین نے جلی قلم کے ساتھ لکھا ہے کہ ایک دفعہ بادشاہ نے مسلمانوں پر ٹیکس عائد کیا۔ امام عز الدین عبد السلام کو پتہ چلا۔ دمشق کی جامعہ مسجد میں جمعہ پڑھانے کے لئے آئے۔ خطبہ شروع کیا ایک آدمی نے پرچہ بھیجا۔ امام صاحب کاروبار کے حالات خراب ہیں لوگ اقتصادی بدحالی کا شکار ہیں اور بادشاہ ٹیکس پہ ٹیکس لگا رہا ہے۔ ایک نیا ٹیکس لگایا ہے۔ امام عبد السلام نے رقعہ پڑھا خاموش رہے جمعہ کا خطبہ ختم کیا سلام پھیرا فارغ ہوئے۔ وہ آدمی آگے بڑھ کے کہنے لگا حضرت میں نے رقعہ بھیجا تھا بادشاہ سے ڈر گئے ہو؟ آپ نے پوچھا تم نے رقعہ بھیجا تھا؟ اس نے کہا حضرت میں نے بھیجا تھا۔ آپ نے فرمایا میں اس بات کی تحقیق کروں گا کہ یہ بات درست ہے کہ نادرست۔