کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 381
میں نکلے ہوئے ہیں۔ ہم دن رات اس بات کے لئے محنت کرتے ہیں کہ دنیا کا حصول ہو جائے اور جو آدمی اپنے بچے کو دین کی راہ پہ ڈالتا ہے وہ قصدا آج کے دور کے مطابق دنیا میں فقیری کو مول لیتا ہے غربت کے دروازے پہ دستک دیتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ میرا بچہ عالم دین بن جائے گا کسی بڑے عہدے پر سرفراز نہیں ہو سکے گا کیونکہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں انگریز نے دو سو برس حکومت کر کے ملک کی ڈگر کو اس انداز پہ ڈال دیا ہے کہ کوئی دین پڑھا ہوا آدمی ملک کے کسی اہم عہدے پر تو بڑی بات ہے حکومت کی کسی معمولی ملازمت کو بھی حاصل نہیں کر سکتا۔ ہمارے ملک کا نظام تعلیم ایسا ہے جس کے اندر دینی تعلیم حاصل کرنے والوں کے لئے کوئی مقام کوئی مرتبہ کوئی عہدہ کوئی منصب اور نوکری کی کوئی پوسٹ مختص نہیں کی گئی ہے۔ ایسا آدمی جو اپنے بچے کو دین کے لئے وقف کرتا ہے وہ جانتا ہے کہ حکومت کے اندر تمام عہدے میرے بچے پر بند ہو گئے۔ اسی طرح آج کے اس دور میں وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ جب میرا بچہ علم دین سے آراستہ ہو جائے گا کوئی بہت بڑا کاروبار نہیں کر سکے گا۔ اس لئے کہ دین ہمہ وقتی کام ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ ایک آدمی صبح دین کا کام کرے شام کو اپنا کاروبار کرے۔ جس طرح ہر چیز انسان سے اس کی پوری توجہ مانگتی ہے اسی طرح علم دین بھی آدمی سے مکمل فراغت کا طلب گار ہوتا ہے۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ اپنے بچے کو دین کے لئے وقف کرنے والا یہ بھی سمجھتا ہے کہ میرے بچے کو اگر اللہ نے دین کا علم عطا کر دیا عالم بن گیا اس کی آزمائش کے مرحلے ختم نہیں ہوں گے۔ بڑا ہو گا دین کی فیلڈ میں کام کرے گا۔ چھتیس سو آدمی اس کی ٹانگ کھینچنے کے لئے کھڑے ہوں گے۔ کوئی حسد کرے گا کوئی بغض کرے گا کوئی اس کو حق کی راہ سے ہٹانے کے لئے اس کے ضمیر کو خریدنا چاہے گا کوئی اس پر بات کرنے پر پابندیاں اور قدغنیں عائد کرے گا اور پھر اگر واقعی یہ صحیح طور پر علم دین سیکھ گیا تو کئی اقتدار والوں کی پیشانیوں پر اس کی بات سن کے شکنیں پڑ جائیں گی۔ پھر اسے احمد ابن حنبل کے نقش قدم پہ چلنا پڑے گا اسے ابن تیمیہ کی طرح زندگی گزارنا پڑے گی اسے شاہ شہید کی سیرت کو زندہ رکھنا پڑے گا۔ وہ جانتا ہے کہ یہ سارے راستے کٹھنائیوں سے اٹے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود اگر کوئی شخص پھر اپنے بچے کو دین کے لئے وقف کرتا ہے تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ