کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 380
کا حصول کیا جائے اور دنیا میں عزت دنیا میں نام اور دنیا میں نمود حاصل کیا جائے؟ ایسے وقت میں اپنے آپ کو دین کی راہ میں وقف کرنا اور دنیاوی الائشوں سے دور رکھنا صرف ان لوگوں کا کام ہے جن پر رب کی خصوصی نظر کرم ہو وگرنہ ہر آدمی کو یہ سعادت یہ منقبت اور یہ فضیلت حاصل نہیں ہو سکتی۔ میں ابھی دوستوں سے یہ بات کہہ رہا تھا کہ پچھلے دور میں بھی ایسے لوگوں کی بہت بڑی قربانی تھی جنہوں نے دنیا کو چھوڑ کر اپنے آپ کو دین کے لئے وقف کیا لیکن جوں جوں مادیت کا فروغ ہوتا گیا اور دنیاوی تقاضے بڑھتے چلے گئے توں توں ان لوگوں کی قدر و قیمت میں اضافہ ہوتا چلا گیا جنہوں نے دنیا سے رخ موڑ کر اپنے آپ کو دین حنیف کی خدمت کے لئے وقف کیا۔ آپ میں سے ہر آدمی ذرا اپنے گریبان کے اندر جھانک کر دیکھے اپنے آپ کو سوچنے پر آمادہ و مجبور کرے اور یہ لمحے بھر کے لئے سوچے کہ اس کا اپنی اولاد کے بارے میں کیا نقطہ نظر ہے؟ چاہے آدمی غریب ہو‘ چاہے آدمی تونگر ہو چاہے کاروبار کرتا ہو چاہے ملازم پیشہ ہو ہر آدمی اپنے بچوں کے بارے میں یہ آرزو رکھتا ہے کہ اگر کاروباری ہے تو اپنے بچے کو بچپن ہی سے کاروبار کے داؤ پیچ سکھائے اس کو کاروبار کے گر سکھلائے تاکہ اس کا بچہ آگے چل کر اس کی دولت میں اضافے کا سبب بنے۔ اگر کوئی ملازم پیشہ ہے تو اس کی بھی یہی خواہش ہے۔ سوچ کا انداز مختلف ہو سکتا ہے ۔ شاید وہ یہ سوچے کہ اس کو اعلی سے اعلی تعلیم دلوائی جائے تاکہ جب اس کی ملازمت کے حصول کا موقع آئے تو کسی اچھے عہدے پر سرفراز ہو سکے۔ ماں بچے کو جنتے ہوئے ہی یہ خواب دیکھنا شروع کر دیتی ہے کہ یہ بچہ بڑا ہو گا اور میرے لئے زندگی کی آسائشوں اور کشائشوں کے حصول کا سبب بنے گا۔ باپ کا نقطہ نظر بھی یہی ہوتا ہے۔ ایسے عالم میں وہ لوگ کتنی بڑی قربانی کرتے ہیں جو اپنے بچوں کو اپنی دنیا میں اضافے کے لئے اور اپنے مال و دولت میں اضافے کے لئے اپنی راہ پہ نہیں چلاتے بلکہ اپنی آخرت اور ان کی عاقبت کو سدھارنے کے لئے انہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ پہ چلاتے ہیں۔ حقیقی بات یہ ہے کہ جب تلک ہم میں سے ہر شخص اس بات کی اہمیت کا خود اپنے بچوں پر انطباق کر کے اندازہ نہ لگائے اس کو ان لوگوں کی قدر و قیمت کا علم نہیں ہو سکتا جو دین کی راہ