کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 379
علماء اور طلباء سے خطاب
خطبہ مسنونہ کے بعد:
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیْمِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ. بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ.
وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ(سورۃ حم السجدہ:۳۳)
حضرات !آج کا اجتماع حقیقت میں صرف اس مقصد کے لئے منعقد ہوا ہے کہ جماعت کی عظیم دینی درسگاہ جامعہ محمدیہ[1] کے طلباء کے نتائج کا اعلان کیا جائے اور وہ طلباء جنہوں نے اپنی جدوجہد سے محنت سے کوشش سے کاوش سے اور تعلیم کے حصول میں لگن سے نمایاں پوزیشن اور کامیابی حاصل کی ہے انہیں انعامات دئیے جائیں اور جو طلباء فارغ ہوئے ہیں انہیں سندات دی جائیں اور ان کی دستار بندی کی جائے۔
حقیقی بات یہ ہے کہ ہر دور میں وہ لوگ بڑی قدر و قیمت کے مالک رہے جنہوں نے اپنے آپ کو دین اسلام کی واقفیت کے لئے اور کتاب و سنت میں مہارت کے لئے وقف کیا اور پھر علم دین کو حاصل کر کے دنیا والوں کو دینی علوم سے روشناس کروانے والے اور بہرہ ور بنانے والے بن گئے۔ لیکن آج کے دور میں ایسے لوگوں کی اہمیت اور حیثیت میں اس لحاظ سے اور زیادہ اضافہ ہو گیا ہے کہ آج کا دور خالصتا مادیت کا دور ہے اور ہر شخص دنیا کی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔ ہر آدمی کے پیش نگاہ صرف اور صرف ایک مقصد ہے کہ کس طرح مال و دولت
[1] جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں جی ٹی روڈ پر واقع ہے ۔ پاکستان میں جماعت اہل حدیث کے اہم دینی مدارس میں سے ایک ہے ۔ 1918ء میں جامعہ محمدیہ ہی میں پاکستان بھر سے علماء اہل حدیث کا تاریخ ساز کنونشن منعقد ہوا تھا جس میں جمعیت اہل حدیث پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا ۔