کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 375
ہے۔ ایمان کی بات ہے میں جانتا ہوں کہ ان کے دل مسخ ہو چکے ان کی ذہنیتیں مسخ ہو چکی ان کے دل گناہوں کی کثرت سے سیاہ ہو گئے۔ ان میں غیرت نام کی کوئی چیز باقی نہیں ہے۔ معاشرے کے واقف حال طبقے جانتے ہیں کہ اس معاشرے کے اس طبقے کے اندر برائی برائی نہیں سمجھی جاتی۔ ان کے ہاں کوئی برائی نہیں۔ لیکن تعجب ملاؤں پر ہے۔ مولویوں پر۔ آدھی گواہی قرآن نے قرار دی ہے میں نے قرار نہیں دی۔ قرآن نے کہا تیسرا پارہ سورہ البقرہ۔ مرد گواہی دے تو ایک عورت گواہی دے تو دو۔ یہ میں نے نہیں کہا۔ اس قرآن نے کہا ہے جو سرور کائنات کے سینہ اطہر پہ نازل ہوا تھا۔ اس کا مذاق اڑایا ہے مولوی نہیں بولا۔ کسی کے طرے میں خم پیدا نہیں ہوا کسی کے پیٹ میں بل نہیں پڑے کسی کی عینک پسینے میں نہیں ڈوبی۔ ہم نے کہا مزاروں پہ جا کے چادریں نہ چڑھاؤ اٹھارہ اکٹھے بولے ہیں۔ کہنے لگے ملک فتنے فساد میں مبتلا ہو گیا ہے۔ کیا فتنہ فساد ہو گیا ہے؟
تیری روٹی اگر بند ہو جائے گی تو ملک میں فتنہ ہو جائے گا ؟
تیری روٹی بند ہو جائے ملک کے سارے فتنے ختم ہو جائیں گے۔ یہ فتنے پیدا ہی تیرے پیٹ کے ایندھن نے کئے کہ تونے اس پیٹ کے جہنم کو بھرنے کے لئے ان مسئلوں کو بیان کیا جن کے بارے میں اقبال نے کہا تھا
زمن بر صوفی و ملا سلامے
کہ پیغام خدا گفتند مارا
ولے تاویل شاں در حیرت انداخت
خدا و جبرئیل و مصطفے را
اس صوفی اور ملا کو میرا سلام کہو جو نام خدا کا لیتا ہے رسول کا لیتا ہے جبرائیل کا لیتا ہے بات وہ کرتا ہے جس بات کو سن کر رسول بھی حیران ہو جاتا ہے جبرائیل بھی حیران ہو جاتا ہے خدا بھی حیران ہو جاتا ہے۔
اور ایک بڑے صاحب نے دلیل کیا دی ہے؟
کہتا ہے اگر یہ حرام ہے تو فلاں مولوی نے کیوں کیا تھا؟
مجھ سے کیا پوچھتے ہو بھئی۔ فلانے مولوی کا نام حلال شاہ ہے؟