کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 374
جی عورتوں کے خلاف بڑی باتیں کرتے ہیں۔ ہم نے کیا بات کی؟ ہم نے کہا یہاں چکلے ختم ہونے چاہئیں گناہ کے بازار ختم ہونے چاہئیں ۔کہتے ہیں یہ عورتوں کے حقوق کے خلاف بات ہے۔ بھئی ہم کو کیا پتا ہے کہ تمہارے نزدیک عورتوں کے حقوق یہ ہیں کہ ان کو گناہ کے بازار میں بٹھا کر ان کے جسموں کی خرید و فروخت کی جائے۔ یہ عورتوں کا حق ہے ؟ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کا جو حق بیان کیا۔ فرمایا بتولے باش و پنہاں شوازیں عصر کہ در آغوش شبیرے بگیری فاطمہ بتول بن کے ساری کائنات کی نظروں سے اوجھل ہو جا تاکہ اپنی آغوش میں کسی حسین کی تربیت کر سکے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت تو یہ ہے کہ حسین کو وہ مائیں پیدا کرتی ہیں جو فاطمہ جیسی ہوں۔ وہ فاطمہ جب ان کی موت کا وقت آیا تو اپنے خاوند کو وصیت کی۔ کہا میرے شوہر میرے مرنے کے بعد میری ایک وصیت کو یاد رکھنا۔ جناب علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا بی بی تم میری بیوی ہی نہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی بھی ہو۔ مجھے بتلاؤ تمہاری وصیت کیا ہے میں پورا کروں گا۔ فرمایا میرے مرنے کے بعد میرا جنازہ رات کو اٹھانا دن کی روشنی میں نہ اٹھانا۔ اس لئے کہ میں نہیں چاہتی کہ میرا جسم دن کی روشنی میں نکلے اگرچہ چادر ہی پڑی ہوئی ہو۔ لیکن میں چادر کے اندر سے بھی اپنے جسم کو غیر محرموں کی نظروں میں لانا گوارہ نہیں کرتی ہوں۔ بتولے باش و پنہاں شوازیں عصر کہ در آغوش شبیرے بگیری یہ معنی ہے۔ آج ہم کو کہتے ہیں کہ عورتوں کے حقوق کی مخالفت کرتے ہیں۔ کیوں؟اس لئے کہ تم یہ کہتے ہو کہ عورتیں اس طرح گلیوں میں بازاروں میں آوارہ نہ پھریں جس طرح آوارہ گائیں پھرتی ہیں۔ یہ عورتوں کے حقوق کی مخالفت کرتے ہیں۔ خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد ہمارا معاشرہ تباہی کے آخری دھانے تک پہنچ گیا ہے۔ لیکن مجھے ان پر کوئی تعجب نہیں