کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 371
اب ذرا اس بے غیرت کا جواب سنو۔ کہنے لگا یہ جو نیکریں پہن کے پھرتی ہیں ہم ان کو بھی اپنی ماں بہن ہی سمجھتے ہیں۔ ہمارے مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمتہ اللہ علیہ گوجرانوالہ کے انہوں نے ایک دفعہ تقریر کی۔ فرمانے لگے یہ ہیر رانجھے کا مصنف وارث شاہ اور دوسرے لوگ یہ دوسروں کی بہو بیٹیاں تھیں جن کے جسم کے ایک ایک حصے کا شاعری میں ذکر کیا ہے اپنی بیٹی کا ذکر کرتا تو پھر ہم دیکھتے۔ بے غیرت کہتے یہ ہیں لیکن کسی بے غیرت کو ہمت نہیں ہوتی اپنی بہن کو بھی نکال کے دکھائے تو سہی کہ لوگ اس کو دیکھیں۔ ان پر کوئی تعجب نہیں ان پر کوئی حیرت نہیں کہ ہمیں پتہ ہے معاشرے کے اندر ایک ایسا طبقہ موجود ہے کہ جس کی آنکھوں سے شرم و حیا کی پٹی اتر چکی ہے۔ جس کا دل مر چکا ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ آدمی جب ایک گناہ کا ارتکاب کرتا ہے اللہ اس کے دل پر ایک سیاہ داغ ڈال دیتا ہے ۔ فرمایا دوسرے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے توبہ نہیں کرتا۔ اللہ دوسرا دھبہ ڈال دیتا ہے۔ تیسرے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تیسرا داغ پڑ جاتا ہے چوتھے کا کرتا ہے چوتھا پڑ جاتا ہے ۔فرمایا پھر اتنے گناہ کرتا ہے کہ سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔ نبی کائنات نے کہا جس کا سارا دل سیاہ ہو جائے پھر وہ بے غیرت ایسا ہو جاتا ہے جس کو اسلام میں دیوث کہا جاتا ہے کہ پھر گناہ کرتے ہوئے اس کو کوئی حیا شرم اور ندامت کا احساس تک نہیں ہوتا۔ ہم سمجھتے ہیں ہمارے معاشرے کے اندرایک طبقہ اس قدر گناہوں میں لتھڑ چکا ہے کہ اس کے دل سیاہ ہو چکے ہیں اس کے دل تاریک ہو چکے ہیں۔ اب ان کو اپنی بے حجابی اور بے حیائی کے بعد دوسرے کی بہو بیٹیوں کو بھی بے حیا بناتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ ان پر تعجب نہیں۔ میری بات کو آج توجہ سے سننا۔ جو بات اب میں کہنے لگا ہوں غور سے سننا۔ ان پر تعجب نہیں ہے ان پر حیرت نہیں ہے۔ ان کے دل تو سیاہ ہو چکے ہیں۔ تعجب ان ملاؤں پہ ہے ان مولویوں پر ان نام نہاد علمائے دین پر جو اپنے آپ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وارث کہلاتے ہیں نبی کے نام کی روٹی کھاتے ہیں ان پر تعجب ہے۔ اسلام پر آرے چلائے جاتے ہیں سرور کائنات کی رسالت کا مذاق اڑایا جاتا ہے قرآن کا استحضاء کیا جاتا ہے