کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 370
یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود وہ یہ کہیں کہ عورتوں کو نیکریں پہنا کر باہر لانا چاہئے اور وہ عورتیں مغرب زدہ عورتیں جو بورڈ اٹھا کے شرم اس معاشرے سے اس طرح مٹ گئی ہے حیا اس طرح اس معاشرے سے ختم ہو گئی ہے بے حیائی فحاشی اس طرح اس معاشرے میں پھیل گئی ہے کہ اپنے نام مسلمانوں کے رکھنے والی عورتیں اگر کافروں کے نام ہوں انیتا ہو لنڈا ہو‘ مارگریٹ ہو اور سیتا ہو کوئی اور کشور سنگھ ہو تو کوئی بات ہے۔ لیکن نام زینب رکھ کر نام مریم رکھ کر نام مسلمانوں کے رکھ کر کتبے اٹھا کے باہر پھرتی ہیں کہ مولوی کی داڑھی میں تنکا۔ یہ کتبے اٹھا کے باہر نکلتی ہیں اور اگر کوئی اس پہ ٹوکتا ہے تو بے غیرت میدان میں آجاتے ہیں۔ کہتے ہیں ہم عورتوں کے حقوق کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کرتے اور اگر یہ بات کہی جائے کہ عورتوں کو جانگئے اور نیکریں پہنانے کی بات جو بے حیا کرتا ہے وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاشرے کو تباہ کرنے کی سازش کرتا ہے کہتے ہیں عورتوں کے حقوق پہ ہم پابندی برداشت نہیں کریں گے اور بے غیرتی کی انتہا ہے۔ تین دن پہلے‘ اس طرح کی بات کرنے والا ایک شخص میرے پاس آیا۔ مجھ کو آکے کہنے لگا جی آپ اس طرح کی بات کیوں کرتے ہیں؟ یہ عورتوں کے حقوق کے منافی ہے۔ میں نے کہا عورتوں کا حق یہ ہے کہ ان کو اس طرح اپنے گھر میں رکھا جائے جس طرح بادشاہ اپنی ملکہ کو رکھتا ہے کہ کوئی نوکر اس پر نظر ڈالنے کی جرات نہیں کرتا۔ یہ عورتوں کا حق ہے کہ عورت کو اس طرح آوارہ بنا دیا جائے جس طرح گمشدہ گائے بازاروں میں عام پھرتی ہے؟ کوئی ان کا مالک نہیں ہے ان کی مہار کسی کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ یہ عورتوں کا حق ہے؟ کہنے لگا نہیں جی اسلام میں یہ سب جائز ہے۔ میں نے کہا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلام میں تو عورت کا خوشبو لگا کے نکلنا بھی جائز نہیں ہے۔ کہنے لگا جی آپ کو کیا تکلیف ہے؟ میں نے کہا تم پھر اپنی ماں بہن کو نیکر پہنا کے باہر کیوں نہیں لاتے؟ اگر یہ کام بڑا ثواب کا ہے تو اس کا آغاز اپنی ماں بہن بیٹی سے کیوں نہیں کرتے؟