کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 368
فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ اس لئے کہ بیمار دلوں والے لوگ کج فکر لوگ کج ذہن لوگ کج رو لوگ تمہاری گفتار کی نرمی سے بھی غلط فہمی میں مبتلا ہو جائیں گے۔ یہ کس نے کہا ؟ رب العلمین نے اپنے قرآن مجید کے اندر کہا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو آگے بڑھایا۔ فرمایا کوئی عورت پردہ کر کے برقعہ پہن کر چادر اوڑھ کر بھی بازار میں جاتے ہوئے خوشبو لگا کے نہیں جا سکتی ۔ برقع پہنا ہوا ہے چادر اوڑھی ہوئی ہے پردہ کیا ہوا ہے لیکن اس کے باوجود گھر سے باہر نکلتے ہوئے خوشبو کا استعمال نہیں کر سکتی۔ کیوں ؟ اس لئے کہ آوارہ مزاج لوگ تمہارے کپڑوں سے اٹھنے والی خوشبو کے سہارے تمہارے جسم کے بارے میں گفتگو نہ کرنے لگیں۔ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ پھر آپ نے ارشاد فرمایا جو عورت گھر سے باہر نکلے پازیب پہن کے نہ نکلے چوڑیاں پہن کے نہ نکلے۔ پازیب ابھی پچھلے چند برسوں تک ہمارے پنجاب میں عام پہنی جاتی تھی۔ اب پھر نیا رواج شروع ہو گیا ہے کہ چھوٹی چھوٹی تاریں جن کے ساتھ ہلکے گھنگھرو بندھے ہوئے ہوتے ہیں اور بعض دفعہ گھنگھرو بھی نہیں ہوتے چاندی کی بنی ہوئی تاریں جس کو پنجابی میں سگلا بھی کہتے ہیں عورتیں اپنے پیروں میں پہنا کرتی ہیں۔ اس لئے کہ اس عورت کے چلنے سے جب پاؤں اٹھتا ہے تو تاریں آپس میں ٹکراتی ہیں۔ ان کی آواز پیدا ہوتی ہے اور اس آواز کے پیدا ہونے سے لوگوں کی نگاہیں جانے والی عورت کی طرف چاہے وہ پردہ کئے ہوئے ہو اٹھتی ہیں ۔ اس لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پازیب پہن کر سگلا پہن کر عورت کو گھر سے باہر نکلنے سے منع کیا ہے کہ سگلا پہن کر گھر سے باہر نہیں نکلنا پازیب پہن کے نہیں نکلنا۔ یہاں تک کہ نبی کائنات علیہ الصلو والسلام کی حدیث ہے۔ آپ نے فرمایا جو عورت پازیب پہن کر یا خوشبو لگا کر گھر سے باہر نکلتی ہے جب تک گھر میں واپس نہیں آجاتی اللہ اس کا شمار بدکاروں میں کرتا ہے۔ آج برائی کے راستوں کو بند کرنے کے لئے فحاشی پر قدغن عائد کرنے کے لئے لوگوں کے ذہنوں کی آوارگی کو ختم کرنے کے لئے لوگوں کی نگاہوں پر قدغنیں عائد کرنے کے لئے لوگوں کو بے راہ روی سے بچانے کے لئے منکرات کو اسلامی معاشرے سے نیست و نابود کرنے کے لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور محمد کریم کے خدا نے اس قدر سختی کی کہ گھر سے باہر