کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 367
کرتے ہوئے اور اپنی طرف برائی کو منسوب کرتے ہوئے کوئی حیا محسوس نہیں کرتے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لوگ آج ہر روز اخبارات کے اندر وہ کہانیاں پڑھتے وہ قصے پڑھتے وہ خبریں پڑھتے ہیں مسلمان مرد بھی مسلمان عورتیں بھی ہم بھی ہماری بیٹیاں بھی ہماری جوان بہنیں بھی ہماری مائیں بھی ہماری بہوئیں بھی ایسی خبریں پڑھتی اور ایسی خبریں انہیں پڑھنے کے لئے دی جاتی مہیا کی جاتی ہیں جن کا ذکر کبھی مردوں کے سامنے بھی نہیں کیا جاتا تھا اور اگر کوئی ایسی بات کا اظہار بھی کرنا چاہتا تو اس کی پیشانی پسینے سے ڈوب جاتی پسینے سے تربتر ہو جاتی اور وہ بات کو اشاروں اور کنایوں میں کرتا۔ اس وقت معاشرہ پاک معاشرہ تھا‘ معاشرہ طاہر معاشرہ تھا‘ معاشرہ پوتر معاشرہ تھا۔ لوگ برائی سے نفرت کرتے اور اپنے بچوں کو برائی سے بچاتے انہیں منکرات سے محفوظ رکھتے تھے۔ آج چونکہ اس برائی کا تذکرہ عام ہو گیا ہے اس لئے اس کا تذکرہ تو تذکرہ اس کا ارتکاب بھی آج کوئی قباحت کی بات نہیں رہی ہے۔ چنانچہ یہی سبب ہے کہ آج وہ لوگ گردن زنی ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی تعلیمات کا اس دنیا میں تذکرہ کرتے ہیں اور وہ لوگ بڑے ترقی پسند ہیں وہ لوگ بڑے مہذب ہیں جو سرور کائنات کی تعلیمات کے چہرے مسخ کرتے بے حیائی کا ارتکاب کرتے بے شرمی کو فروغ دیتے اخلاقی قدروں کو پامال کرتے ہیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آپ کے صحابہ کے زمانے میں آپ کے خلفاء راشدین کے دور میں عورتیں جب بھی کسی غیر مرد سے گفتگو کرتی تھیں تو دیوار کی اوٹ سے پردہ کے پیچھے سے گفتگو کرتی تھیں اور اس گفتگو کے اندر بھی اللہ کے نبی نے ان کو حکم دیا تھا قرآن مجید نے ان کو حکم دیا تھا فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلِبْہٖ مَرَضٌ وَّ قُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا (سورۃالاحزاب:۳۲) اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیویو! اے مسلمانوں کی بیٹیو! اے مومنوں کی بیویو! اے مسلمان عورتو! پردے کے پیچھے سے بھی گفتگو کرتے ہوئے اپنی آواز میں لوچ پیدا نہ کرو۔ اپنی گفتگو میں نرمی اور مٹھاس کا لہجہ پیدا نہ کرو۔ کیوں ؟