کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 366
فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ (سورۃالنور:۱۹) وہ لوگ جو منکرات اور فواحش کا لوگوں کے درمیان ذکر کرتے رہتے ہیں لوگوں کے درمیان گناہوں کے تذکرے کرتے رہتے ہیں لوگوں میں برائی کو پھیلاتے رہتے ہیں اللہ کا عذاب ان پر بھی اسی طرح آئے گا جس طرح کہ برائی کا ارتکاب کرنے والوں پہ آتا ہے۔ اس لئے کہ انہوں نے لوگوں کے اندر برائی کو گوارہ بنا دیا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لئے اس بات کا حکم دیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو کسی برائی کے اندر مشغول دیکھے اور محسوس کرے کہ میرے سوا اس کو کسی نے نہیں دیکھا۔ یا تو اتنے لوگ ہوں کہ گواہی دے کر اس آدمی کو سزا دلوا سکیں اور وہ لوگوں کے لئے عبرت کا مرقع بن سکے یا تو ایسی صورت ہو پھر تو انہیں شرعی عدالت کے اندر جا کر اسلامی قضا کے پاس حاضر ہو کر ایسے شخص کے خلاف گواہی دے کر اس کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہئے اور اگر ایسی صورت نہ ہو تو پھر گناہوں کا تذکرہ کر کے اس کی عیب گوئی کر کے لوگوں کو اس بات کی طرف ترغیب نہ دینی چاہئے کہ اگر اتنے بڑے آدمی نے گناہ کیا بچ گیا ہے تو اب تمہیں گناہ کرتے ہوئے کیا بات ہے؟ آج ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان تعلیمات کی سچائی کو اور اس کے نتیجے میں مرتب ہونے والے اثرات کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور اس سے گریز کے نتیجے میں ہمارے اندر ہمارے معاشرے کے اندر جو تباہی اور بربادی پیدا ہو گئی ہے اس کے اثرات کو بھی دیکھتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ امت مسلمہ نے اپنے نبی کی تعلیمات کو چھوڑ کر کس طرح اپنے معاشرے کو ایسا معاشرہ بنا دیا ہے جس کو مسلمان اور اسلامی معاشرہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے اور پھر اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ آج اچھے بھلے شریف لوگوں کے نزدیک چھوٹے گناہ تو چھوٹے ہوتے ہیں بڑے گناہوں سے نفرت نہیں رہی۔ کبھی ایسا زمانہ تھا کہ اگر پورے محلے میں ایک شخص کسی ایسی حرکت کا ارتکاب کرتا تھا جسے اخلاقیات کے منافی سمجھا جاتا تھا تو ایسا شخص مدتوں تک محلے میں دن دیہاڑے نکلنے کی جرات نہیں کرتا تھا۔ رات کی تاریکی میں آتا تھا اور صبح کی روشنی کے اجالے کے پھیلنے سے پہلے اندھیرے میں نکل جاتا تھا کہ لوگ کیا کہیں گے ؟ آج یہ حالت ہے کہ نہ صرف یہ کہ برائی ہم کو گوارہ ہو چکی ہے بلکہ ہم برائی کا اظہار