کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 356
معاف نہیں ہے۔ اس شخص کو نماز معاف ہے جس کے ہوش و حواس قائم نہیں۔ اس کا موجود اور عدم موجود برابر ہے۔ اس قدر نماز کے بارے میں تاکید ہے۔ اور قرآن کی طرف آؤ۔ اللہ رب العزت نے نماز کو عین حالت جنگ میں بھی معاف نہیں کیا۔ گولیاں برس رہی ہیں تلواریں چل رہی ہیں تیروں کی بارش ہو رہی ہے۔ اِذَا کُنْتَ فِیْہِمْ فَاَقَمْتَ لَھُمُ الصَّلٰوۃَ (سورۃالنساء:۱۰۲) اے میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ موجود ہیں۔تلواریں چل رہی ہیںدشمن خون کا پیاسا۔ ایسے حال میں بھی نماز معاف نہیں۔ اٹھو باجماعت نماز ادا کرواؤ۔ اللہ دشمن سامنے موجود خطرے کی حالت گولیاں برس رہی ہیں۔ فرمایا آدھی فوج دشمن کے مقابلے میں کھڑی رہے آدھی فوج اللہ کی بارگاہ میں کھڑی ہو جائے۔ ایسی حالت میں بھی نماز معاف نہیں اور ہم دکان پہ بیٹھے ہوئے کاروبار میں مصروف کھاتے پیتے‘ چلتے پھرتے‘ دوڑتے بھاگتے‘ ہاتھوں کے اندر قوت‘ پیروں کے اندر توانائی‘ جسم کے اندر طاقت ہر چیز موجود ہے لیکن نماز ادا کرنے کی ہمت موجود نہیں ہے۔ فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَاتِہِمْ سَاھُوْنَ (سورۃالماعون:۴‘۵) ایسے نمازیوں کے لئے بھی جہنم جو سستی کے مارے ہوئے۔ کبھی پڑھ لی کبھی نہ پڑھی۔ حاجی صاحب بڑے نیک آدمی ہیں۔ کیا تکلیف ہے ان کی نیکی کی؟ یہ صبح اور عشاء کی نماز ضرور پڑھتے ہیں۔ یہ نیکی کی علامت ہے؟ یہ بدبخت خدا کا مذاق اڑاتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا ارتکاب کرتا ہے۔ اللہ نے پانچ نمازیں اتاریں رسول نے پانچ نمازوں کو فرض قرار دیا۔ یہ اپنے آپ کو خدا اور رسول بنا بیٹھا کہ خدا کی پانچ نمازیں نہیں رسول کی پانچ نمازیں نہیں اس نے اپنی طرف سے دو بنا لی ہیں۔ ایسا شخص قیامت کے دن دوہرے عذاب کا مستحق ہو گا۔ ایک اللہ کی نافرمانی اور دوسرا شریعت کا مذاق۔ اس نے دوہرا جرم کیا۔ اور مسئلہ آج یاد رکھنا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق بیوی کو نماز پڑھانا خاوند کی ذمہ داری ہے اور بے شرمی کی انتہا ہے بے حمیتی کی انتہاہے۔ آج کے زمانے میں بیویاں خاوندوں کو نماز پڑھاتی